ہمارے سروں پر سات آسمانوں کا بار کیا کم تھا کہ رزاق شاہد آٹھواں آسمان بھی اٹھا لائے۔ اور یہ وہ آسمان ہے جو ہم پرکبھی عذاب نہیں بھیجتا، ہمارے دکھوں کو کم کرتا اور زخموں پر مرہم رکھتا ہے۔ رزاق شاہد کے ساتھ میری ایک یا دو مختصر ملاقاتیں ہیں لیکن ان ملاقاتوں کے نقش اتنے گہرے ہیں کہ میں انہیں ہمیشہ اپنے دل کے قریب سمجھتا ہوں۔ خوبصورتی ان کی تحریروں کی یہ ہے کہ ان میں شعریت بھی ہے اور وہ حسن بھی جو کسی نثر پارے کو بلندی عطا کرتا ہے۔رزاق شاہد فاضل پور میں رہتے ہیں ،شعبہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ دوبرس قبل جب سرداروں نے اپنی زمینیں بچانے کے لیے مختلف بندباندھے اورسندھو سائیں کے راستے میں رکاوٹ بنے تودریا نے فاضل پور اوراس کے نواحی علاقوں کی جانب راستہ بنالیا۔رزاق شاہد اوربہت سے لوگوں کی طرح کھلے آسمان تلے آگئے ،ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو مجتمع کیا اوراب آٹھواں آسمان ہمارے سامنے لے آئے۔
”آٹھواں آسمان “ کئی کتابوں کی ایک کتاب ہے۔ رزاق شاہد نے اپنے نالوں کو پابند نے نہیں کیا۔ یہ دل سے نکلتی بے ساختہ آوازیں ہیں جو کسی دوست کے لئے ہوں تو دعا اور کسی ظالم کے بارے میں ہوں تو آہ بن جاتی ہیں۔ یہ بیک وقت خاکے بھی ہیں ، سفر نامے بھی اور افسانے بھی۔ رزاق شاہد کی ان تحریروں کی نذیر لغاری ،شکیل پتافی ، طارق اسماعیل احمدانی ، ڈاکٹر عباس برمانی اور سعدیہ شکیل پذیرائی کر چکے ہیں۔یہ کتاب گزشتہ کئی روز سے میرے زیر مطالعہ تھی اورمیں اس کے ایک ایک جملے کوکئی کئی مرتبہ پڑھ کر لطف اندوز ہوتارہا۔رزاق شاہد نے ترقی پسندی کاکبھی دعویٰ نہیں کیا لیکن حقیقت میں ایسے ہی لوگ صحیح معنوں میں ترقی پسند ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو بلند آوازمیں سوچتے ہیں اوراپنی ترقی پسندی کونام نہاد ترقی پسندوں کی طر ح اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتے ۔رزاق شاہد شعبہ تعلیم سے تو وابستہ رہے لیکن ہم ان پر ماہر تعلیم ہونے کی تہمت بھی نہیں لگاسکتے ،وہ ایک سچے اورکھرے ترقی پسند ہیں ۔انہوں نے سیاست کوعقیدہ نہیں بنایا ،قربانیواں دینے والوں کی قربانیوں کااعتراف کیا لیکن ان کی غلطیوں پر بھی خاموش نہیں رہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو غلطیوں سے بالاترسمجھتے ہیں اوران کی غلطیوں کاجابچا ،بلاوجہ دفاع کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ چار سو صفحات پر مشتمل اس کتاب سے صرف چند اقتباسات آپ کی نذر کرتا ہوں ورنہ ہر صفحہ ایسے تخلیقی جملوں سے سجا ہوا ہے کہ ان میں سے انتخاب کرنا بھی کوئی آسان نہیں۔ لیجئے رزاق شاہد کے جملوں کا لطف اٹھائیے
۔۔کرنال سے آنے والے نے نئے ملک میں عقیدے کا کیکٹس لگایا تو دادا یہاں سے چلا گیا کہ اب یہاں انسان نہیں رہ سکے گا۔لیکن اس کے بھائیوں کو ترانوں کانشہ تھا”وہ رک گئے ۔پھر جب دریابکے تووہ بھی چلے گئے کہ اب یہ کوفہ ہے اورکربل بپا ہونے والی ہے ۔
۔۔ پھر سننے میں آیا کہ پارلیمانوں میں عوامی عقیدوں کی تقسیم ہو رہی ہے تو بوڑھا دادا بولا اب یہ لٹکے گا۔ اور وہی ہوا۔
۔۔گڑھی کی بیٹی نے جب حلف اٹھایا،یہیں یہ مکان بنوایا اورپہلی بیٹی کی پیدائش پرجشن منایا ۔۔۔لیکن یہ خوشیاں عارضی ٹھیر ی مغربی سرحد پربچھی بارودی سرنگ اسے اڑا لے گئی ۔
۔۔ جسے بھاگنے کا کرایہ ملتا جائے گا وہ بھاگتا رہے گا ۔
۔۔ آپ تو ایک چرچ نہیں بچا سکتے ملک کیسے بچائیں گے ؟
۔۔بندے کا ڈسا نہ ہو صاحب ، سانپ کے ڈسے کوتو ہم مرنے نہیں دیتے ۔
۔۔ کیا تو ماما قدیر کا بیٹا لا سکتا ہے ؟ زرینہ بلوچ کا والد ڈھونڈ سکتا ہے ؟ تو کچھ بھی نہیں کر سکتا ۔
۔۔ سیلز گرل نے کہا مجھے بارہ گھنٹے ڈیوٹی کے چودہ ہزار ملتے ہیں اور بھکارن ماں بیٹی مجھ سے دو چار ہزار زیادہ کماتی ہیں۔ گالیاں وہ بھی سنتی ہیں اور میں بھی۔ کاش میں بھی ان کی طرح کما سکتی۔
۔۔ لیکن یہ جو آہستہ آہستہ مارے جا رہے ہیں ان کے لیے تو کوئی کمیشن نہیں بنتا ، کوئی مارچ نہیں کرتا۔
۔۔جسم فروش چکلوں کے طوائفیں تو آبادی کے تناسب سے بڑھتی رہیں گی البتہ قلم اورزبان فروش طوائفوں کی تعداد ہاﺅسنگ کالونیوں کی طرح بڑھے گی ،خودکشیاں توان گنت ۔۔بیماریوں کے بڑھنے سے ادویات کادھندہ سب سے عروج پرہوگا۔
۔۔درباروں ،مزاروں پر اب رقص ودھمال کی بجائے اپنے دکھوں پہ ماتم ہوگا ۔
۔۔غریب کاگھر جلاکر ،مندر اورگرجاگراکر عوامی غصے کی ہوا نکالی جاتی رہے گی ۔
۔۔جب سوئی میں گیس دریافت ہوئی تھی تو خوشحالی کی باتیں سننے کو ملی تھیں آج سوئی گیس سے بلوچستان جل رہاہے اوریاد رکھنا کل تھر کے کوئلے کی کالک تھر کے چہرے پہ مل دی جائے گی ۔
۔۔وردی کی قید میں محصور ذہنوں کو ہرمعقول بات بکواس ہی لگتی ہے ۔
۔۔ہمارے ایک مٹھی تنکے جلانے سے آلودگی ہے اورتیرے ملک میں چلنے والی کروڑوں گاڑیوں کے دھوئیں سے پھول برستے ہیں کیا؟
۔۔یہ پاگل نہیں نارمل انسان ہے عقل وفہم مساوات اوربرابری کی بات کرتاہے ۔اچھا ایسا ہے تواسے کسی پولیس مقابلے میں آڑادو،ملعون سے جان چھوٹ جائے گی ۔
´ ´۔۔اگلے روز وہ اسمبلی کے اجلاس میں دھاڑا خداکاشکر کرو آئے حزب اختلاف والوں میری فورس کے پاس گولیاں ختم ہوگئی تھیں ورنہ ایک بھی خدائی خدمت گار بچ کرناجاتا۔
۔۔کربلا میں پیاسے انسان مارنے والوں کی نسلیں بھلاپیاسے پرندوں کو زندہ کیسے جانے دیں گی ۔
۔۔مکان کی دیوار گری توباپ بولا سبھی لوگ جلدی سے مندر میں پناہ لے لو ،کومل بولی سیلاب مندر کو گرانے کے بعد ہمارے گھر میں داخل ہواہے ،پتا جی مندر کاآسراچھوڑ دیں ۔