یار!!!
تیرے ہسپتال میں مریض تو نظر نہیں آ رہے.
ڈنمارک تیرے ملک کا رکشا نہیں کہ چھت تک سواریوں سے بھرا ہوا ہو.
ساٹھ لاکھ کی آبادی والے اس ملک میں سالانہ چھے لاکھ لوگ ہسپتالوں میں چیک اپ کے لیے آتے ہیں اور وہ بھی معمولی سے.
پھر تو تُو صبح شام اپنے ہسپتال میں کام کرتا ہو گا.
کیا مطلب؟
یہی کہ یہاں پرائیویٹ پریکٹس کے تو بڑے مزے ہوں گے.
تُو ابھی تک چک 133 میں پھنسا ہوا ہے.
بھائی میرے
میں کوئی پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرتا.
کیوں نہیں کرتا؟
کس لئے پرائیویٹ پریکٹس کروں؟
بھائی
بچوں کی تعلیم کے لئے پیسے چاہیں. اولاد کی شادیاں بھی تو کرنی ہیں.
مکان بھی اپنا اور شاندار ہونا چاہئے.
پھر یورپ میں اپنی بی ایم ڈبلیو گاڑی کی شان ہی کچھ اور ہے.
تُو ابھی تک استحصالی پاکستان میں پھنسا ہوا ہے.
ڈنمارک میں یونیورسٹی تک تعلیم مفت ہے بلکہ نو سو ڈالر ماہانہ وظیفہ بھی ملتا ہے طالب علموں کو.
مکان سرکاری ملا ہوا ہے.
علاج تو سارے خاندان کا مفت ہے. ویسے بیمار کیسے ہوں.
نہ غربت کا خوف نہ لٹنے کا ڈر نہ آلودہ پانی نہ زہریلی ہوا.
ابلتے گٹر ٹوٹی سڑکیں تو خیر آپ کو مبارک ہوں.
پھر بندہ بیمار کیسے ہو.
یہاں کی ریلوے اور انٹر سٹی ٹرانسپورٹ سروس اتنا شاندار ہے کہ گاڑی کی ضرورت نہیں.
جب ہماری ساری ضرورتیں ریاست پوری کر رہی ہے پھر ہمیں باؤلے کتے نے کاٹا ہے سِکوں کے انبار لگائیں.
ہم خوش ہیں اور مسرور ہیں خوش رہنا ہی تو زندگی ہے.
چلیں ادریس سے ملتے ہیں.
کب آئے؟
مجھے تو ایک مہینہ ہو گیا ہے
یار میں بچوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے یورپ گھوم رہا تھا.
یہ کافر حرام زادے تنخواہ کے ساتھ زبردستی چھٹیاں دیتے ہیں کہ جاؤ فیملی کے وقت گزارو گھومو پھرو.
کمال ہے.
ہمارے جام پور میں تو ایک خاتون ٹیچر کو میڑنرنٹی لیو نہ ملی وہ بیچاری سکول کے گیٹ پر ہی مر گئی اور تعزیت کرنے والوں نے کہا اللہ دی مرضی.
تُو گندی باتوں سے باز نہیں آیا ابھی تک.
گندی باتوں سے یاد آیا سرمد بتا رہا تھا کہ تجھے پاکستان میں ایک دن اچھی خاصی مار پڑی تھی.
کیا ہوا تھا اس دن؟
میری پہلی تعیناتی شاہ والی میں ہوئی تھی.
ایک شام ایک خاتون کو بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا دائی نے کیس بگاڑ دیا تھا.
میں نے کہا مریضہ کو خون کی شدید کمی ہے. یہاں الٹرا ساؤنڈ مشین خراب ہے اور میں نیا نیا بھرتی ہوا ہوں.
یہ گائنی کے سپیشلسٹ ڈاکٹر کا کیس ہے اسے فوراً راجن پور لے جائیں.
اس پر وہ لڑنے لگے اور پھر مجھے بہت مارا. شکر ہے مقامی عورتوں نے مجھے بچایا لیکن اسی دوران میرا ایک بازو ٹوٹ چکا تھا
.. اور اسی روز میں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور آج آپ کے ساتھ ہوں.
چھوڑو ان باتوں کو پاکستانی چینل لگاؤ خبریں سنتے ہیں.
ٹی وی پر ایک اکڑی گردن کے ساتھ تقریر کر رہا تھا.
پاکستانی ڈاکٹر ظالم ہیں، لٹیرے ہیں قصائی ہیں، دولت کے پجاری ہیں، میڈیسن کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے غلام ہیں،
انہی کے پیسوں سے دوسرے ملکوں کی سیریں کرتے ہیں اور واپس آ کر عوام کو لوٹتے ہیں.
یہ سن کر سرمد نے اچانک کرسی اٹھا کر اتنے زور سے ٹی وی پر ماری کہ سکرین ٹوٹ گئی.
بکتا ہے حرامی سالا.
ڈنمارک میں ہم بھی ڈاکٹر ہیں، ہم بھی علاج کرتے ہیں پاکستان میں ڈاکٹر ہیں وہ بھی علاج کرتے ہیں.
کام ایک ہے ایک جگہ فرشتے ہیں جبکہ دوسری جگہ انہیں شیطان کا درجہ ملا ہوا ہے.
یہ دوا ساز کمپنیوں کو تیری حکومت لائسنس دیتی ہےمادر ۔۔ .
ان کے نرخ تیری ڈرگ ریگولر اتھارٹی طے کرتی ہے.
ہمیں دوسرے ملکوں دورے تیری اجازت سے دیے گئے پاسپورٹ کے ذریعے کرائے جاتے ہیں.
تجھے گلی کا کتا بھونکے تو سینکڑوں میل دور بیٹھے تجھے معلوم ہو جاتا ہے اور تیرے سور اسے بھنبھوڑنے دوڑ پڑتے ہیں.
اور یہ دوائیں بنانے والے فرعون کیا کر رہے ہیں تجھے پتا نہیں.
ہمیں ایک تھائی طوائف کو کعبے کے طواف کرا کر ڈاکو بنا رہے ہیں.
تیری تو نسلیں پالنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ان کمپنیوں نے. تُو انہیں کیوں روکے گا.
یہ چاروں طرف گندگی کے ڈھیر،
یہ بھوک ننگ افلاس میں والی پلنے والی تیری عوام کو ہم نے بیمار کیا ہے
کتنا سہولتیں اور سکھ دے رکھا ہے حرام زادے تو نے اپنی عوام کو… یہ تو چلتی پھرتی ہسپتالیں ہیں.
سڑکوں پر ہم حادثے کراتے ہیں.
گندہ پانی ہم پلاتے ہیں
ہوٹلوں کا آلودہ کھانا ہم بناتے ہیں کیا.
پاکستانی ڈاکٹروں کو ڈاکو لٹیرا ظالم تمہارے نظام نے بنایا ہوا ہے.
ڈنمارک میں ریاست 45 فیصد ٹیکس لے کر ہمیں جنت جیسا ماحول دیتی ہے اور پاکستان میں بھوک کا خوف،
موت کا خوف،
اولاد کے بے آسرا ہونے ڈر ،
گھر بنانے کا چکر اور اسی گھر میں لٹ جانے کا خوف،
پھر انسان شیطان نہ بنے تو کیا کرے.
الو کے پٹھے تیرے استحصالی نظام نے ہمارے مقدس پیشے کو گالی بنا دیا ہے
ہمیں حریص و خود غرض بنا دیا ہے.
ہم کیوبا کی مثال نہیں دیتے جہاں کوئی پرائیویٹ پریکٹس نہیں کوئی پرائیویٹ ہسپتال نہیں سب کا بہترین علاج ریاست کی ذمہ داری ہے اور دنیا کا سب سے بہترین میڈیکل کئیر سسٹم کیوبا میں ہے لیکن وہ کیمونسٹ ہیں تجھے تو کمیونزم سے نفرت گُھٹی میں ملی ہوئی ہے ڈنمارک تو تیرے والد محترم کے دیے گئے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت عوام کو ماں جیسا پیار دے رہا ہے
اس کی نقل کر لے.
فرق
پیشے میں نہیں
فرق انسان میں نہیں
فرق حکومتی نظام میں ہے
ایک حکومت ماں ہے
اور دوسری محلے کا دادا.
کمرے میں جلیلہ جعفر روتے ہوئے کمرے میں داخل ہوتی ہے…
کیا ہوا؟
کوئٹہ میں پھر میرے ہزارہ کی شادی میں بم پھٹا ہے بیس شہداء کی لاشیں چوک میں رکھی ہوئی ہیں.