اختصارئےسرائیکی وسیب
رزاق شاہد کا اختصاریہ : سخی سرور ۔۔نفرت کی رودکوہی ، وساخی اور قاتل کرشنگ مشینوں کی کہانی

یاروں کو پتا تو ہے جونہی چیتر وساخ کے مہینے شروع ہوتے میرا سرور سخی۔۔ نازیں بھری، دودھ میں دُھلی جوانیوں کے قہقہوں سے گونج اٹھتا۔۔ مسافر آتے، مزاور اپنے در کھول دیتے۔۔ سنکھ بجتا، نقارے پہ چوٹ پڑتی، ڈھول کی تھاپ پہ جوان دلوں کے رقص سے سارا سلیمان پہاڑ گونج اٹھتا۔۔ کبھی چوٹی کے شیر جوان آگے آتے، کبھی ڈیرے کی ٹولی رنگ جماتی، کبھی داجل کے گھبرو جھمر کھیلتے۔۔ پھر رات ڈھلتی تو جھنگ جوانیاں، رنگین لاچے، حسین پراندے آگے آتے اور للکار پڑتی دیکھ سرور سخی اب اپنی منتی، اب جوان جٹی کی دھمال دیکھ۔۔ پھر جوان دلوں پہ ہاتھ رکھتے، بوڑھے سکتے میں آ جاتے جبکہ سلیمان پہاڑ وجد میں حسین جولانیوں کا ساتھ دیتا۔۔ غم بھول جاتے دھوکے یاد نہ رہتے پیاس جاتی رہتی بھوک مٹ جاتی من شانت ہو جاتے ۔۔سرور سخی اپنی پناہوں میں بھر لیتا۔۔
دن کو اسپِ تیز کے مقابلے، سواروں کے شِملے دیدنے ہوتے،اونٹوں کی سجاوٹ میں فنکاروں کی مہارت پر ناظرین کی واہ واہ کے ساتھ ساتھ داجل نسل کے بیلوں کے چرچے دور دور سے قدردانوں کو کھینچ لاتے۔وساخی میلے کے سارے ثقافتی رنگ سرور سخی کی سخاوت اور کوہ سلیمان کے شکوہ کی گواہی دیتے۔۔
پھر مغرب سے نفرت کی لُری چلی پھر آلِ سعود نے میرے سرور سخی کی نیں میں بغض کا کالا پانی بہا دیا۔۔ میرے معصوم بچوں کو بارود پہنا دیا۔۔ جہاں خوشی دیکھو، جہاں پھول دیکھو، جہاں بہار نظر آئے، جہاں پیار نظر آئے۔۔ پھٹ جاؤ۔۔
پھر وساخی جاتی رہی جوان بھوک کی دوزخ میں جھونک دیئے۔۔
پھر میرے سرور سخی کی وساخی نفرت کی رودکوہی میں بہہ گئی،
سنکھ خاموش کر دیئے،
ڈھول پھاڑ دیئے، شہنائی رکھ دی گئی۔۔
دوستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب سرور سخی سینکڑوں کرش مشینوں کے شور اور پستے پتھروں کی گرد سے اٹا ایک ویران سا نگر رہ گیا ہے
اور ان مشینوں پہ کام کرتا آدم جایا گھٹ گھٹ کے مر رہا ہے، رک رک کے جی رہا ہے. ریزہ ریزہ ہوتے پتھر سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں بھر جاتے ہیں اور پھر کرب و درد کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔۔
سِلیکوسِس بیماری سے جب سانس اکھڑنے لگتی ہے جسم کانپنے لگتا ہے ۔۔ تو کرش مالک نکال دیتا ہے.
پھر بوڑھا باپ اکلوتی بکری بیچ دیتا ہے. ماں پرانی حَسی سنار کے آگے رکھ دیتی ہے. دلہن کانوں کی چِیلک وار دیتی ہے.. خون تھوکتا دولہا… ذبیحہ کی مانند تڑپتا بیٹا… خدا کسی کو نہ دکھائے….. بوقت دفن ایک فقرہ کا تکرار جگر چیر کے رکھ دیتا ہے کہ رب دی رضا….
چند سالوں میں دو سو سے زائد مزدوروں کو دفن ہوتے دیکھ کر اب کوہ سلیمان کے سوتے بھی خشک ہو چکے ہیں.
ہم گمشدگیوں پہ روتے ہیں،
پھٹتے بموں پہ ماتم بھی کرتے ہیں،
گرتے لاشوں پہ بین برحق…
لیکن یہ جو آہستہ آہستہ مارے جا رہے ہیں….
ان کے لئے تو کوئی کمیشن نہیں بنتا،
ان کے لئے تو کوئی مارچ نہیں کرتا،
ان کے لئے تو کوئی اسمبلی میں نہیں بولتا.