فیض احمدفیض ترقی پسند تحریک کی سب سے توانا آوازتھے ۔انہوں نے اپنی شاعری ،اپنی شخصیت ،اپنے طرزِ عمل اور طرزِ فکر کے انمٹ نقوش چھوڑے ۔ میر، غالب اور اقبال کے بعد فیض اپنے عہد کے نمائندہ شاعر قرارپائے ۔ اس مقام کے لئے نہ انہوں نے کوئی منفی حربہ استعمال کیا اور نہ اپنے بعض ہم عصروں کی طرح دربار سے وابستگی اختیار کی۔ وہ دبے، کچلے ،محکوموں اور مظلوموں کی بات کرتے تھے اور ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے تھے۔ شخصیت اتنی دلکش کہ چاہنے والوں کو مسحورکردیتی تھی۔ ہم نے فیض صاحب کودیکھا نہیں ان سے ملے نہیں ان سے باتیں نہیں کیں صرف ان کے بارے میں ان کے ہمعصروں سے سنا اور پڑھا اس کے نتیجے میں ان کی شخصیت کا جو ہالہ بنا ہم آج تک ا س کے حصار سے نہیں نکل سکے تو جو ان سے ملے ہوں گے ان کی بھلا کیا کیفیت ہوگی ۔
ملتان کے ایک مجسمہ ساز صادق شہزاد تھے ۔ 1973-74ءمیں صادق شہزاد کی عمر یہی کوئی 24، 25 سال ہو گی۔ صادق شہزاد ایک روز بوہڑگیٹ کے باہر اپنی دکان پر بیٹھے تھے کہ ایک گاڑی ان کی دکان کے باہر آکر رکی۔ گاڑی سے ملتان آرٹس کونسل کے ریذیڈنٹ ڈائیریکٹر اسلم انصاری باہر نکلے اوربتایا کہ فیض صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ صادق شہزاد دم بخود رہ گئے۔ انہوں نے مڑکر دیکھا تو فیض صاحب گاڑی سے باہر نکل رہے تھے۔ صادق شہزاد بتاتے ہیں ’میرے لئے وہ بہت عجیب لمحہ تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں۔ کہیں یہ خواب تو نہیں؟ اسی دوران فیض صاحب میرے سامنے تھے۔ میں نے کہا فیض صاحب آپ حکم کرتے میں آپ کے پاس خود حاضر ہو جاتا۔ فیض صاحب نے کہا ’بھئی !ہم نے آپ کے مجسمے دیکھے اورآرٹس کونسل والوں سے پوچھا کہ یہ کس کے فن پارے ہیں ۔انہوں نے کہا یہ صادق شہزاد کے مجسمے ہیں ۔ہم نے کہا ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ آرٹس کونسل والوں نے کہا ہم انہیں یہاں بلوالیتے ہیں۔ ہم نے کہا بھئی انہیں یہاں کیوں بلاتے ہیں؟ ملنا تو ہمیں ہے۔ ہم خود جا کے مل لیتے ہیں۔ سو ہم چلے آئے۔‘ صادق شہزاد آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے جب یہ واقعہ بیان کر رہے تھے تو ان کی آواز میں اتنی محبت اتنی چاشنی اور اتنی حیرت تھی کہ جیسے وہ آج تک اس منظر کے سحر سے نہ نکلے ہوں ۔
ملتان ہی میں عفت ذکی صاحبہ بھی رہتی ہیں۔ ریڈیوپاکستان ملتان کی ایک ایسی آواز کہ جو ہوا کے دوش پر سفرکرتی تھی تو سب مسحور ہوجاتے تھے ۔فیض صاحب کی یادوں سے عفت ذکی کا دل آج بھی آباد ہے۔حسن پروانہ کالونی کی ارسلان سٹریٹ پر عفت ذکی کا مکان تھا ۔فیض صاحب جب بھی ملتان آتے عفت ذکی کے پاس ٹھہرتے تھے ۔عفت ذکی کے پاس فیض صاحب کی بہت سی یادیں اور بہت سے خطوط ہیں ۔فیض صاحب کے خطوط کے حوالے سے ایک مضمون میں وہ لکھتی ہیں ”مجھے بخوبی احساس ہوتا کہ میرا گھرفیض صاحب کو وہ آرام مہیا نہیں کرسکتا جس کے وہ حقدار ہیں ۔ یہ بھی احساس تھا کہ ان کو رہنے کے لئے جگہ کی کمی نہیں یہ صرف ان کی مہربانی تھی اور ہماری خوش قسمتی کہ وہ غریب خانے کو ترجیح دیتے تھے ۔ایک دن میں نے کہا فیض صاحب آپ اتنے uncomfortable گھر میں کیسے رہتے ہیں ؟کہنے لگے بھئی کوئی بات نہیں 5 سال جیل میں بھی تو رہے تھے۔ یہ چھوٹا چھوٹا سا مزاح فیض صاحب کے خطو ط میں جھلکتا تھا ایک دفعہ خط میں تازہ غزل لکھ بھیجی
تجھے پکارا ہے بے ارادہ
جو دل دکھائے بہت زیادہ
وہ آئے پرسش کو پھر سجائے
قبائے رنگیں ادائے سادہ
خط میں فیض صاحب نے یہ بھی لکھا کہ تمہاری رعایت سے آخری مصرع الٹ ہونا چاہئے یعنی”ادائے رنگیں قبائے سادہ“لیکن وہ کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا“۔
23 اکتوبر 1984 ءکو فیض صاحب نے عفت ذکی کے نام آخری خط تحریرکیا انہوں نے لکھا ”دوستی،کوئی قرض نہیں جس کا تقاضا کیا جاسکے نہ یہ کوئی خونی یا قانونی رشتہ ہے جس کے منقطع ہونے کی شکایت کی جائے اگر کسی کا دل بھر جائے تو صبر کر لینا چاہئے“عفت ذکی فیض صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات پر فخر کرتی ہیں ۔ان کے پاس فیض صاحب کے خطوط اور فیض صاحب کی یادوں کا سرمایہ ہے لیکن وہ ان یادوں کو ضبط ِ تحریرمیں لانے سے بھی گریزاں ہیں کہ یاد جب تک دل میں رہے، معتبر ہوتی ہے۔
ملتان اور اہل ملتان کے ساتھ فیض صاحب کی وابستگی کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ایک یاد اقبال ارشد بھی سینے سے لگائے پھرتے ہیں اور وہ یاد ہے 1968ءکی۔ یہ وہ سال ہے جب اقبال ارشد نے ملتان میں فیض صاحب کے ساتھ مشاعرہ پڑھا تھا۔ اس مشاعرے کا اہتمام نشتر میڈیکل کالجِ ملتان کی تقریبات کے سلسلے میں کیاگیا تھا۔ یہ مشاعرہ اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ آج بھی اقبال ارشد کو یاد ہے ۔اس مشاعرے کی ایک تصویر اقبال ارشد کی زندگی کا اثاثہ ہے۔اقبال ارشدنے اپنی زندگی میں بہت کچھ کھویا۔وہ اپنی بینائی سے بھی محروم ہو گئے لیکن انہوں نے اس مشاعرے کی وہ تصویر کہیں گم نہ ہونے دی جس میں فیض احمد فیض ان کے ساتھ بیٹھے ہیں۔نوجوان اور خوبصورت اقبال ارشد ایک ادا کے ساتھ اپنے چہرے پر ہاتھ رکھے فیض صاحب کے عقب میں موجود ہیں۔ایک خوشی ان کے چہرے سے چھلکتی دکھائی دیتی ہے اور خوشی کیوں نہ چھلکتی تصویر بنائے جانے سے چند لمحے قبل تو فیض صاحب نے ان کی غزل پر انہیں تھپکی جو دی تھی۔ اسی تصویر میں فیض صاحب کے ساتھ کشور ناہید اور احمد فراز بھی موجود ہیں۔ اقبال ارشد آج بھی اس مشاعرے کااحوال سناتے اور فیض صاحب کی تھپکی کا ذکر کرتے ہیں تو خوشی سے ان کا جھریوں بھرا چہرہ دمکنے لگتا ہے ۔
ایسے بہت سے واقعات ،ایسی بہت سی یادیں فیض کے چاہنے والوں کی زندگی کا حسین اثاثہ ہیں ۔فیض ایک شخصیت نہیں ایک تحریک کا نام ہے ایک ایسی تحریک جس نے لوگوں کو جبر کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ دیا ۔ایک ایسی تحریک جس نے بازار میں پابجولاں چلنے والوں کو باوقار بنایا۔وہ ہمتِ کفراور جراتِ تحقیق کی دعا کرتے تھے۔وہ زہرِ امروز میں شیرینیءفردا بھرنا چاہتے تھے ۔فیض آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کی فکر آج بھی زندہ ہے۔فیض صاحب کی یادیں فیض امن میلے کے بغیر بھی زندہ رہیں گی۔خلقِ خدا ایک نہ اک دن ضرورراج کرے گی ۔وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ہم دیکھیں گے۔ضرور دیکھیں گے۔کب دیکھیں گے اس کا تو ہمیں علم نہیں لیکن ہم اس یقین پر زندہ ہیں کہ وعدہ ضرور وفا ہوگا۔
فیس بک کمینٹ