پڑھا لیجئے آپ دشمن کے بچوں کو ۔۔۔ اس کانتیجہ بھی آپ کے سامنے آجائے گا۔آرمی پبلک سکول کے شہدا کی برسی پر جاری کیا جانے والا یہ نغمہ ’مجھے دشمن کے بچوں کوپڑھانا ہے‘ یقیناً بہت خوبصورت ہے لیکن حقائق بہت تلخ ہوتے ہیں۔ایک محفل میں سرائیکی دانشور ظہور احمد دھریجہ نے درست سوال اٹھایاکہ کیا جو لوگ دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں ،اے پی ایس حملے کی مذمت نہیں کرتے، کیا وہ ان پڑھ، جاہل اور گنوار ہیں؟ تعلیم کبھی بھی کسی کاکچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اب یہ کہنا بھی بڑا مضحکہ خیز ہوگا کہ اگر جنرل حمید گل کے والدین انہیں تعلیم دلوا دیتے تو وہ شاید دہشت گردوں کی حمایت نہ کرتے۔ اصل میں تو سوچ تبدیل کرناضروری ہے۔ ایک سال بیت گیا۔ ہم نے سوچ کو تبدیل نہیں کیا۔ دہشت گردی کے خلاف نیم دلی سے جاری جنگ کے جو بھی نتائج برآمدہوئے۔ وہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ سیاسی اور فوجی قیادت اس بنیادی مسئلے پرمتفق ہے اور وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہم سب کامشترکہ خواب ہے لیکن عملی صورتحال تویہی ہے کہ سب اپنی اپنی ڈفلی بجارہے ہیں۔ کچھ لوگ ہمارا دفاعی اثاثہ ہیں۔ ہمارے نزدیک کچھ دہشت گرد اچھے اور چند برے ہیں۔ بات شاید زیادہ تلخ ہوجائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دہشت گردوں کے بچوں کو پڑھانے کی بجائے ان دہشت گردوں کو مارنا ضروری ہوگیا ہے جو ہمارے بچوں پر رحم نہ کھائیں۔ ہم ان کے بارے میں دوغلی پالیسیاں کیوں سوچیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ دہشت گردی خاص طورپر خودکش حملوں کی روک تھام اسی صورت میں ممکن ہوگی کہ جب حملہ آوروں کے ’اہل خانہ‘ کوبھی نیست ونابود کردیا جائے۔ تاہم ہمارے لئے ان ماہرین سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ۔ ان کاکہنا ہے کہ اس پالیسی پر بہت سے ممالک میں عمل درآمد کیاگیا اور اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔یہ ظالمانہ فعل ضرور ہے لیکن اس کے پیچھے سب سے بڑی منطق یہ ہے کہ خودکش بمبار کوجنت کے بعد دوسرا لالچ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد اس کے بیوی بچوں کو خطیررقم مل جائے گی اور وہ اپنی جنت اور بچوں کی مستقبل کی خاطراپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔ملک اسحاق کو اس کے بیٹوں سمیت پولیس مقابلے میں مارنے کے پیچھے شاید یہی حقیقت عملی کارفرما تھی۔اس کے علاوہ حملوں میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے اہل خانہ انتقام لینے کے لیے ان کے بعد اسی نوعیت کے حملے شروع کردیتے ہیں اوراس کی مثالیں خود ہمارے معاشرے میں موجودہیں اور دہشت گردی کے حامی سب سے بڑا جواز یہی پیش کرتے ہیں کہ اگر دہشت گردوں کو نشانہ بنایاجائے گا تو جواب میں انتقامی جذبہ مزید دہشت گردی کاباعث بنے گا۔
جذباتی نعروں اور گیتوں کے ذریعے اگر معاشرہ خوبصورت بنایا جاسکتا تو کب کابن چکا ہوتا۔ ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے‘۔جیسا خوبصورت ملی نغمہ تودوبارہ تخلیق نہیں ہوسکا ۔کیا اس ملی نغمے نے سوہنی دھرتی کو قدم قدم آباد رکھنے میں کوئی کردارادا کیا؟آخری بات یہ کہ اگر ہم دہشت گردوں کے بچوں کو تعلیم دے کر سدھارنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں یقیناً ’مار نہیں، پیار‘والی پالیسی اختیارکرنا پڑے گی اور دہشت گردوں کے لیے اس پالیسی پرعمل درآمد تو گزشتہ تین عشروں سے جاری ہے۔