قصور میں ننھی زینب کے ساتھ رونماہونے والاالمناک سانحہ اورپھراسے بے دردی کے ساتھ قتل کرکے لاش کاکوڑے کے ڈھیر پرپھینک دیاجانا ایک ایسااندوہناک واقعہ ہے کہ جس کے بارے میں بات کرنے کے لئے بہت حوصلہ چاہیے اور بہت ہمت چاہیے۔ لیکن اس معاشرے میں پے درپے رونماہونے والے ایسے شرمناک واقعات نے ہمیں بہت ساحوصلہ بھی دیدیاہے اورہم میں ظلم سہنے کی ہمت بھی بہت پیداہوچکی ہے ۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔ایک ایسا ملک جواسلام کے نام پر حاصل کیاگیاتھااوراس لئے حاصل کیاگیاتھاکہ یہاں پرلوگوں کی جان ومال اورعزت محفوظ رہے ۔یہ ملک اس لئے حاصل کیاگیاتھاکہ ہمارے اسلاف کو یقین تھاکہ اسلامی معاشرے اوراسلامی ملک میں لوگوں کو انصاف ملے گا اورانہیں ان کے حقوق بھی ملیں گے ۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں بہت بڑے بڑے مذہبی اجتماعات منعقدہوتے ہیں، جہاں لوگ ناموس رسالت پرمرمٹنے کےلئے توتیارہوتے ہیں لیکن نبی کریم کی تعلیمات پرعمل نہیں کرتے یہ وہ معاشرہ ہے جہاں علمائے دین کی لمبی قطار ہے اورمختلف رنگوں کے عماموں کی بہارہے اورجہاں ہرشخص صاحب دستارہے ۔یہ وہ معاشرہ ہے جہاں اخلاقیات کی بات کی جاتی ہے ،جہاں عورت کی حرمت کے دعوے کئے جاتے ہیں،اور جہاںمغربی معاشرے کو بے راہ روی کاشکارقراردیاجاتاہے ۔اس ملک میں ظلم اوربریت کایہ کوئی پہلاواقعہ نہیں ہے اورافسوس تو یہ ہے کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں۔ ہم ہرایسے واقعہ کے بعد ایسی ہی گفتگوکرتے ہیں جیسی صبح سے جارہی ہے۔ثناءخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟ثناءخوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟یہ تکرارہم صبح سے سن رہے ہیں، بچی کی تصویر بھی صبح سے سوشل میڈیا پردکھائی دے رہی ہے ٹی وی چینلز پر شورشرابہ جاری ہے۔ سیاست دانوں اوراینکروں کی دکانیںسجی ہوئی ہیں معمول کی نشریات توغیرمعمولی ہوگئیں لیکن بیانات تووہی ہیںاقدامات بھی غیر معمولی نہیںباقی سب کام معمول کے مطابق جاری ہے ۔اقتدارکی جنگ ،الزام تراشیاں ،گالیاں ،طعنے سب کچھ معمول کے مطابق جاری ہے۔معمول کے مطابق آرمی چیف سے مددطلب کرلی گئی اورانہوںنے حکم بھی دیدیاکہ مجرموںتک رسائی کے لئے فوج کی جانب سے سول حکومت کو بھر پورمددفراہم کی جائے ۔وزیراعظم نے بھی اس واقعہ دکھ کااظہارکردیا،چیف جسٹس آف پاکستان کاکام اب انصاف فراہم کرنا نہیں بس ازخودنوٹس لیناہوتاہے انہوںنے ازخودنوٹس لے لیا۔وزیراعلیٰ شہباز شریف جوخادم اعلیٰ کے منصب پربھی خودہی فائز ہیں ایسے موقعوں پرکوئی وضاحت سنے بغیر افسروں کےخلاف کاروائی کرتے ہیں اورعوام کاغصہ ٹھنڈاہونے تک اپنے چہیتے افسروں کو اوایس ڈی بنادیتے ہیں ۔انہوںنے بھی فوری طورپراپنافرض پوراکردیا،طاہرالقادری صاحب کوحکومت کے خلاف منظم تحریک کے لئے کئی روز سے جنازوں کی تلاش تھی آج انہیں معصوم بچی کاجنازہ مل گیاسووہ فوری طورپرقصور پہنچے اوربچی کاجنازہ بھی پڑھادیا۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسے ظالمانہ فعل صرف اس معاشرے میں کیوں رونماہوتے ہیں جومذہب کے نام پرکٹنے مرنے کےلئے تیارہوتاہے اورجوتمام مسلمانوں کا درداپنے دل میں محسوس کرتاہے توایسے معاشرے میں جہاں ایک معصوم بچی درندگی کانشانہ بن جائے اوراس سے پہلے کئی بچے اوربچیاں بھی درندگی کانشانہ بن چکے ہوںاورجہاں 100بچوں کوقتل کرکے ان کی لاشیں تیزاب کے ڈرم میں ڈالی جاتی رہی ہوں وہاں ایک زینب کے قتل کی بھلاکیاحیثیت رہ جاتی ہے ۔میں کوئی جذباتی تحریر نہیں لکھنا چاہتا جتنا لکھ چکااس سے زیادہ لکھنے کاحوصلہ بھی نہیں بس یہ کہنا چاہتاہوں کہ جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ننھی زینب کاخون رائیگاںنہیںجائے گا انہیںتسلی رکھنی چاہیں یہاں بچے اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے کہ یہاں تو مکتب یا(مدرسے )بھی اب فرعونوں نے کھول لئے ہیں ۔ننھی زینب ہم تیرے قاتلوںکو کیفرکردارتک نہیںپہنچاسکتے اورہم تیرے قتل کی ذمہ داری حکمرانوں پرڈال کر ان کی برطرفی کامطالبہ بھی تو نہیں کرسکتے کہ اس طرح جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اور سینیٹ کے الیکشن سے پہلے جمہوریت کو نقصان بہر حال نہیں پہنچنا چاہیے سو اے پیاری زینب ہر درد مند باپ کی طرح میں بھی تیرے لئے صرف آنسو ہی بہا سکتا تھا سو بہا رہا ہوں کہ اس اسلامی معاشرے میں مجھے بھی یہی یقین کرنا ہے کہ ا ن ظا لموں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا اور اس کی مرضی کے بغیر چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی ۔
فیس بک کمینٹ