حزیں صدیقی کاشمار ملتان کے سینئرشعراءمیں ہوتا ہے۔غزل کے حوالے سے ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ملتان میں حزیں صاحب کی شناخت کے دوتین حوالے ہیں۔سب سے بڑا حوالہ تو ظاہرہے غزل ہی ہے۔دوسرا حوالہ ان کی بیٹھک ہوا کرتی تھی جس میں شہر کے ادیب اورشاعر شام کوجمع ہوتے تھے۔صدربازار میں واقع حزیں صدیقی کی بیٹھک ادبی سرگرمیوں کامرکز ہواکرتی تھی۔وہاں باقاعدگی کے ساتھ طرحی اور غیر طرحی مشاعرے منعقد ہوتے تھے۔یوں ایک طرف باباہوٹل ادیبوں اورشاعروں کے بیٹھنے کی جگہ تھی تو دوسری جانب حزیں صاحب کی بیٹھک میں ادبی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔پھریوں ہوا کہ حزیں صدیقی کو صدر بازار سے گلگشت کالونی منتقل ہوناپڑگیا۔گلگشت کالونی چونکہ شہر سے کچھ فاصلے پر ہے اس لیے ان کی بیٹھک محض ماضی کاحوالہ بن گئی ہے۔
حزیں صدیقی کے شعری مجموعے کی اشاعت کی خبریں کافی عرصے سے سننے کومل رہی تھیں اورظاہرہے کہ غزل کے خوبصورت مجموعے کی اشاعت کا سبھی کوانتظارتھا۔”قفس رنگ“کے نام سے شائع ہونے والا حزیں صدیقی کی غزلوں کامجموعہ انفرادیت کاحامل ہے۔”قفس رنگ“کی اشاعت کے بعد اصغر علی شاہ نے رائٹرزگلڈ کے زیراہتمام اس کی تعارفی تقریب کااہتمام کیا۔معروف نقاد ،شاعر اورانشائیہ نگارڈاکٹر وزیرآغا اس تقریب میں شرکت کے لیے سرگودھا سے ملتان آئے۔تقریب کی صدارت بھی انہوں نے کی۔اس موقع پر ڈاکٹر محمد امین،حسین سحر،شمیم ترمذی اورعاصی کرنالی نے اظہارخیال کیا۔
ڈاکٹروزیرآغا کی ملتان آمد پر مختلف ادیبوں ،شاعروں نے ان کے ساتھ ملاقاتیں کیں اورادب کے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔لیکن اس حوالے سے ایک واقعہ نے شہر میں بہت شہرت حاصل کی۔اوروہ واقعہ تھا نسیم شاہد کی ڈاکٹروزیرآغا کے ساتھ ملاقات کا۔نسیم شاہد ملتان کے فیچر رائٹر ہیں ۔کسی ایک اخبار کے ساتھ منسلک نہیں۔”امروز“ میں چھپنا ہوتو ترقی پسند بن جاتے ہیں اور نوائے وقت میں اپنی تحریریں شائع کرانے کے لیے اپنی داڑھی والی تصویر استعمال کرتے ہیں۔ان کی بعض غزلیں اسلام سلمانی کے پرچے ”سنگھار“ میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔نسیم شاہد نے ڈاکٹروزیرآغا کے ساتھ ملاقات میں ڈاکٹر انورسدید کے اس خط کی شکایت کی جوانہوں نے ”تجدیدِ نو“میں نسیم شاہد کے مضمون ”نئی غزل کا طرز احساس“کے عنوان کے حوالے سے لکھاتھا اورجسے قند مکرر کے طورپر ملتان میں بھی شائع کیاگیا۔نسیم شاہدکوگلہ تھا کہ ڈاکٹرانور سدید نے وہ خط کیوں تحریر کیا۔اس گلے پر ڈاکٹر وزیرآغا کاردعمل کیاتھااس بارے میں توہم کچھ نہیں جانتے لیکن عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمد امین نے اس موقع پرنسیم شاہد کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ”آپ کا وہ مضمون نہ صرف یہ کہ بے ربط تھا بلکہ آٰپ نے اس میں بددیانتی کامظاہرہ بھی کیا۔لہذا اس مضمون کے حوالے سے ڈاکٹرانور سدید نے جو خط لکھا وہ ضروری تھا۔سناہے امین صاحب کے اس جملے پر محفل میں سناٹا طاری ہوگیا اورنسیم شاہد آج کل محمد امین کی ہائیکونگاری پر مضمون لکھنے کی تیاری کررہے ہیں۔
روزنامہ امروزلاہور۔12اگست1990ء