آوازیں ختم ہورہی ہیں،وہ تواناآوازیں کہ جوجینے کاحوصلہ دیتی تھیںوہ آوازیں جوسناٹاختم کرتی تھیں ۔ایسی ہی ایک آواز عاصمہ جہانگیرکی تھی ۔ایک ایسی آواز جومظلوموں کے حقوق کے لئے بلندہوتی تھی ۔ایک ایسی آواز کہ جو جھوٹے الزامات میں گرفتارہونے والے لاوارثوں کو یقین دلاتی تھی کہ ان کابھی کوئی وارث ہے۔ایک ایسی آوازکہ جوآمروں کو خوفزدہ کردیتی تھی ۔ایک ایسی آواز جوواقعی آوازتھی،وہ ایک نڈراوربہادرخاتون تھیں ۔ایک ایسی خاتون کہ جسے ”مردآہن“کہاجاتاتھا ۔وہ انسانی حقوق کی علمبردار تھیں وہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی تھیں وہ خواتین کے خلاف بنائے گئے امتیازی قوانین کے خاتمے کےلئے آوازبلندکرتی تھیں ۔عاصمہ جہانگیر پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتی تھیں۔ وہ بوٹوں کی دھمک سے نہیں ڈرتی تھیں۔مارشل لاءدور ہویاجمہوریت کازمانہ،فوجی آمریت ہویاشخصی حاکمیت عاصمہ جہانگیرنے ہمیشہ آئین وقانون کی بالادستی کے لئے آوازبلندکی۔ضیاءالحق کے دور سے مشرف کے زمانے تک عاصمہ جہانگیر کی فتوحات کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے۔سڑکوں پرلاٹھیاں کھاتی ،نعرے لگاتی ،جلوسوںمیں شریک عاصمہ جہانگیر جو علامت بن چکی تھی حُریت فکرکی اورجن کے بارے میں ہمیں یقین تھاکہ وہ جوکہہ رہی ہیں درست کہہ رہی ہیں ہم نے بہت سے ”جمہوریت پسندوں “کواعترازاحسن بنتے دیکھا اورایسے ہی لوگوں کی وجہ سے قدم قدم پرہمیں احساس ہوا کہ ہمارے خواب بے تعبیر رہیں گے۔عاصمہ جہانگیر جیسی ہستیاں غنیمت تھیں کہ جن کی موجودگی میں ہم اپنے خوابوں کی تعبیر کےلئے پرامیدرہتے تھے وہ ہم جیسے بے حوصلہ لوگوں کے لئے حوصلہ تھیں۔ان تمام ترخوبیوں کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر ہمیں اس لئے بھی اچھی لگتی تھیں کہ ایک خاص طبقہ ان سے خداواسطے کابیررکھتاتھا۔ایک خاص شکل کے لوگ انہیں برابھلاکہتے تھے اوریہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا کردار ہمیں بھی اپنی راہیں متعین کرنے میں مدددیتاہے۔ ہمیں معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ جس طرف ہیںہمیں اس جانب نہیں جانا اوراگریہ لوگ بلندآوازکے ساتھ کسی کی مخالفت پرکمربستہ ہیں اوراس کے خلاف الزامات کی بھرمارکررہے ہیں تواس کامطلب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شخص خوبیوں کامالک ہے۔عاصمہ جہانگیر ایسی ہی بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں کہ وہ خاص شکل والاطبقہ ان سے نفرت کرتاتھا۔وہ ایک ایسے وقت میں رخصت ہوئیں کہ جب دوٹوک بات کرنے والے لوگوں کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے ۔وہ ایک ایسے ماحول میں رخصت ہوئیں جب ادارے ختم ہورہے ہیں ،راستے مسدودہورہے ہیں ،روشنی مدہم ہورہی ہے ،دھند بڑھتی جارہی ہے اوردھمک قریب آرہی ہے۔ایک ایک کرکے آوازیں ختم ہوتی جارہی ہیں اورصرف چیخ وپکارباقی ہے۔
آوازیں ختم ہورہی ہیں،وہ تواناآوازیں کہ جوجینے کاحوصلہ دیتی تھیں ۔ وہ آوازیں جوسناٹاختم کرتی تھیں ۔ایسی ہی ایک آواز عاصمہ جہانگیرکی تھی ۔ایک ایسی آواز جومظلوموں کے حقوق کے لئے بلندہوتی تھی ۔ایک ایسی آواز کہ جو جھوٹے الزامات میں گرفتارہونے والے لاوارثوں کو یقین دلاتی تھی کہ ان کابھی کوئی وارث ہے۔ایک ایسی آوازکہ جوآمروں کو خوفزدہ کردیتی تھی ۔ایک ایسی آواز جوواقعی آوازتھی،وہ ایک نڈراوربہادرخاتون تھیں ۔ایک ایسی خاتون کہ جسے ”مردآہن“کہاجاتاتھا ۔وہ انسانی حقوق کی علمبردار تھیں ، وہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتی تھیں وہ خواتین کے خلاف بنائے گئے امتیازی قوانین کے خاتمے کےلئے آوازبلندکرتی تھیں ۔عاصمہ جہانگیر پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتی تھیں۔ وہ بوٹوں کی دھمک سے نہیں ڈرتی تھیں۔مارشل لاءدور ہویاجمہوریت کازمانہ،فوجی آمریت ہویاشخصی حاکمیت عاصمہ جہانگیرنے ہمیشہ آئین وقانون کی بالادستی کے لئے آوازبلندکی۔ضیاءالحق کے دور سے مشرف کے زمانے تک عاصمہ جہانگیر کی فتوحات کی ایک طویل فہرست ہمارے سامنے ہے۔سڑکوں پرلاٹھیاں کھاتی ،نعرے لگاتی ،جلوسوں میں شریک عاصمہ جہانگیر جو علامت بن چکی تھی حُریت فکرکی اورجن کے بارے میں ہمیں یقین تھاکہ وہ جوکہہ رہی ہیں درست کہہ رہی ہیں ۔ ہم نے بہت سے ”جمہوریت پسندوں “ کواعترازاحسن بنتے دیکھا اورایسے ہی لوگوں کی وجہ سے قدم قدم پرہمیں احساس ہوا کہ ہمارے خواب بے تعبیر رہیں گے۔عاصمہ جہانگیر جیسی ہستیاں غنیمت تھیں کہ جن کی موجودگی میں ہم اپنے خوابوں کی تعبیر کےلئے پرامیدرہتے تھے ۔وہ ہم جیسے بے حوصلہ لوگوں کے لئے حوصلہ تھیں۔اور ان تمام ترخوبیوں کے ساتھ ساتھ عاصمہ جہانگیر ہمیں اس لئے بھی اچھی لگتی تھیں کہ ایک خاص طبقہ ان سے خداواسطے کابیررکھتاتھا۔ایک خاص شکل کے لوگ انہیں برابھلاکہتے تھے اوریہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا کردار ہمیں بھی اپنی راہیں متعین کرنے میں مدددیتاہے۔ ہمیں معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ جس طرف ہیں ہمیں اس جانب نہیں جانا اوراگریہ لوگ بلندآوازکے ساتھ کسی کی مخالفت پرکمربستہ ہوتےہیں اوراس کے خلاف الزامات کی بھرمارکرتے ہیں تواس کامطلب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شخص خوبیوں کامالک ہے۔عاصمہ جہانگیر ایسی ہی بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں کہ وہ خاص شکل والاطبقہ ان سے نفرت کرتاتھا۔وہ ایک ایسے وقت میں رخصت ہوئیں کہ جب دوٹوک بات کرنے والے لوگوں کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے ۔وہ ایک ایسے ماحول میں رخصت ہوئیں جب ادارے ختم ہورہے ہیں ،راستے مسدودہورہے ہیں ،روشنی مدہم ہورہی ہے ،دھند بڑھتی جارہی ہے اوردھمک قریب آرہی ہے۔ایک ایک کرکے آوازیں ختم ہوتی جارہی ہیں اورصرف چیخ وپکارباقی رہ گئی ہے۔
فیس بک کمینٹ