ملتان۔ 13 فروری/ 2013
محترم شاہیا صاحب کیسے ہیں آپ؟
رات کے ایک بجے ہیں اور میں لال کرتی میں نذیرے کے ہوٹل پر بیٹھا آپ سے مخاطب ہوں کہ آپ سے بات کرنے کے لئے آج مجھے یہی جگہ زیادہ مناسب لگی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں آخری تین برسوں کے دوران آپ کے ساتھ، یعنی نجم الاصغر شاہیا کے ساتھ، بہت طویل نشستیں رہیں۔ یہی وہ کمرہ تھا جہاں ایک کرسی پر آپ بیٹھتے تھے اور آپ کے گرد ہم سب جمع ہوتے تھے۔ ادب، سیاست، مذہب ہر موضوع پر کھل کر بات ہوتی۔ ہم آپ سے شعر سنتے، خود بھی سناتے۔ ایک بیٹھک ہوتی تھی یہاں دوستوں کی جو بعد ازاں ادبی بیٹھک کی بنیاد بنی۔ آج میں یہاں تنہا بیٹھا آپ سے بات کر رہا ہوں۔ آپ کا تذکرہ تو کم و بیش روز ہی رہتا ہے، کبھی آپ کے کسی شعر، کبھی کسی نظم اور کبھی کسی یادگار واقعے کے حوالے سے لیکن آج جی چاہا کہ آپ سے بہت سی باتیں کروں…. تین سال بیت گئے آپ سے مکالمہ ہی نہیں ہوا۔ آج شام میں آپ کے گھر گیا تھا۔ پورے تین سال بعد۔ تین سال قبل 12فروری کی شب آپ سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ آرٹس کونسل میں ادبی بیٹھک کے پہلے اجلاس کے بعد میں آپ کو اجلاس کا احوال سنانے گیا تھا۔ آپ کی طبیعت اُن دنوں بہت نا ساز تھی اور آپ خواہش کے باوجود اجلاس میں شریک نہ ہو سکے تھے لیکن آپ نے اصرار کیا تھا کہ اجلاس کے بعد مجھے احوال سنانے ضرور آنا اور میں اس رات بہت دیر تک آپ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ پھر 14 فرور ی کو ویلنٹائنز ڈے پر میں وسیب ٹی وی کی ٹرانسمیشن سے فراغت کے بعد بھی آپ سے ملنے آیا تھا جو میری آپ سے آخری ملاقات تھی۔ 19 فروری کی رات ادبی بیٹھک کے اجلاس کے بعد آپ نے فون کر کے مجھے گھر آنے کو کہا بھی لیکن اس رات میں آپ سے نہ مل سکا تھا۔ اور اگلے روز تو آپ رخصت ہو گئے۔
تین سال بعد اس گلی میں دوبارہ گیا جہاں میں آپ سے ملنے ہی جایا کرتا تھا۔ اس گلی کے سامنے سے تو ان تین برسوں کے دوران بارہا گزرا اور ہر بار آپ کو یاد کیا۔ ہر باروہاں سے گزرتے ہوئے آپ کو سلام کیا لیکن گلی کے اندر دوبارہ داخل ہونے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اور وہاں تھا بھی کون کہ جس سے ملنے کے لئے دوبارہ وہاں جاتا۔ آج بھی مجھے آپ کی ایک نظم ہی آپ کے گھر لے کر گئی تھی۔ مجھے صبح سے آپ کی ایک نظم یاد آ رہی تھی جو آپ نے آخری دنوں میں کہی تھی ”زندگی بے حد حسیں ہے “مجھے یاد ہے اُس نظم کی ایک کاپی میں نے آپ سے لی تھی اور کہیں حفاظت کے ساتھ رکھ دی۔ خیال تھا اس مرتبہ آپ کی برسی کے موقع پر وہ نظم کسی اخبار میں شائع کراؤں گا کہ وہ اب تک غیرمطبوعہ ہے۔ نظم اپنے کاغذوں میں تلاش بھی کی مگر نہیں ملی۔ حفاظت سے رکھی ہوئی چیزوں کے ساتھ یہی تو ہوتا ہے کہ وہ وقت پرنہیں ملتیں۔ وہ نظم بھی مجھے مل جائے گی کسی روز مگر آج تو نہیں ملی نا۔ آپ کی وہ ڈائری مجھے آپ کی الماری میں بھی دکھائی نہیں دی جس میں آپ نے وہ نظم درج کی تھی۔ آپ کے گھر کے دروازے پر آپ کے نام کی تختی اب بھی لگی ہے۔ گھنٹی بجائی تو عتیق نے دروازہ کھولا۔ مجھے دیکھ کر اسے حیرت اس لئے نہ ہوئی کہ میں نے جانے سے پہلے اسے فون کر کے اپنی آمد سے مطلع کر دیا تھا بالکل اسی طرح جیسے آپ کو کیا کرتا تھا۔ عتیق مجھے اسی کمرے میں لے گیا جو آپ کا مسکن ہوتا تھا۔ وہ کمرہ جوں کا توں تھا۔ اسی طرح سامنے والی الماری میں آپ کی کتابیں ترتیب سے سجی تھیں۔ اسی ترتیب سے جیسے آپ نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا ’جیسے قبرستان میں قبریں، جلدوں والی پکی قبریں، غیز مجلد کچی قبریں‘….
سار ا منظر نظروں میں گھوم گیا۔ کیسے آپ دوستوں کے آنے پر خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ کیسے چائے منگواتے تھے۔ کیسے لفظوں پر بحثیں ہوتی تھیں۔ کیسے بحث کے دوران آپ جذباتی ہو جاتے اور کس طرح آپ بیماری کے دوران بھی گھر والوں سے چھپ کر کبھی کبھار سگریٹ پیتے تھے۔ اسی کمرے میں آپ کے قہقہے بھی سنے اور یہیں کئی بار آپ کو درد سے کراہتے بھی دیکھا۔ اور جب ہم کہتے تھے کہ شاہیا صاحب آپ بائی پاس کرا لیں تو آپ کہتے مجھے ان ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں۔ اور گھنٹوں ہم آپ کو علاج کے لئے قائل کرتے تھے۔ آپ مان بھی جاتے مگر پھر دوبارہ ضد میں آجاتے۔ سامنے الماری کے اوپر وہ پینا فلیکس فریم میں آویزاں تھا جو آپ کے ساتھ شام کے موقع پر راشد نثار جعفری نے میرے ساتھ بیٹھ کر اپنے دفتر میں ڈیزائین کرایا تھا۔ فلیکس دیکھ کر آپ ہی نہیں راشد نثار بھی بہت یاد آیا۔ اب تو وہ بھی آپ کے پاس آگیا ، ’زندگی ایک درندوں سے بھرا جنگل ہے ‘والی نظم سن کرخوب داد دیتا ہو گا۔ اور آپ کو اپنا شعر سناتا ہو گا
فیض دینے کا ہنر مجھ کو عطا کر مالک
جس طرح تو نے نباتات میں رکھا ہوا ہے
اور آپ بھی جواب میں اسے اپنا یہ شعر ضرور سناتے ہوں گے
مجھ سے پیڑ اچھا وہ زندہ ہو تو خوشبو بانٹے
اور مر کر بھی تعفن تو نہیں چھوڑتا ہے
اور شاہیا صاحب آپ کے پاس عاصی کرنالی صاحب بھی تو پہنچ چکے ہیں۔ آرٹس کونسل کے مشاعرے میں آپ نے ان کی نعت کے ایک شعر پر اعتراض کیا تو انہوں نے کہا تھا ’شاہیا صاحب آپ میرے اشعار پر زیادہ غور نہ کیا کریں‘۔ مجھے آپ سے یہی گزارش کرنا ہے کہ آپ اب ان کے اشعار پر اعتراض بلکہ غورنہ کیجئے گاکہ غور کرنے کے لئے وہاں اور بہت سے معاملات بھی تو ہوں گے۔ کبھی جی اداس ہو تو اقبال ساغر صدیقی صاحب سے مل لیجئے گا وہ غالب کے کسی شعر کا کوئی شگفتہ سا استعمال کر کے آپ کا سارا غصہ ختم کر دیں گے۔ ہاں اقبال حسن بھپلا بھی تو وہیں ہیں ان سے کوئی بحث نہ کیجئے گا۔ ان کے جلالی لہجے کے بعد تو ایک روز آپ نے یہاں نذیرے کے ہوٹل پر بھی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ ہم سب بہت حیران ہوئے تھے اس روز۔ سنائیں ضیا شبنمی صاحب سے بھی کبھی ملاقات ہوئی؟ کیا وہ عالمِ برزخ میں بھی خواتین شاعرات کے فن اور شخصیت پر کام کر رہے ہیں؟ ثمینہ راجہ بھی وہیں ہیں شبنمی صاحب سے کہنا ان کے بارے میں جو باتیں کرتے تھے ذرا منہ پہ تو کر کے دکھائیں۔ اطہر ناسک سے میرا سلام کہئے گا وہ تو اپنے استاد بیدل حیدری کے ساتھ بہت خوش ہو گا۔
اب آپ کہیں گے کہ میں ملتان کا احوال تو سنا نہیں رہا۔ شاہیا صاحب ملتان کو کیا ہونا ہے۔ ملتان ٹھیک ہے بس آپ کے بعد ہمارا حال ٹھیک نہیں۔ شام کے جو لمحات آپ کے ساتھ گزرتے تھے وہ اب خواب ہوئے۔ لمحات ہی نہیں وہ ہوٹل والی محفل بھی خواب ہو گئی۔ بس دوست ہر ہفتے ادبی بیٹھک میں آجاتے ہیں اور اسی کو ملاقات سمجھتے ہیں۔ آپ کو تو یاد ہی ہے عاطف مرزا کے جانے کے بعدہی اس ہوٹل کی رونق ماند پڑنے لگی تھی۔ باقی سب دوست تو آپ کو معلوم ہی ہے آپ کے ہوتے ہوئے بھی ’بہت مصروف‘ رہتے تھے۔ ایک راشد نثارتھا جو کھینچ کھانچ کے دوستوں کو لے آتا تھا اسے بھی آپ کھینچ کھانچ کے اپنے پاس لے گئے۔ آپ نے ایک بار کہا تھا کہ اگر دو شاعر سرِ راہے ملیں اور کہیں بیٹھ کر چائے نہ پئیں تو سمجھ لینا کہ اُن میں سے ایک شاعر نہیں ہو گا۔ شاہیا صاحب اب تو لگتا ہے دونوں ہی شاعر نہیں ہوتے۔ دو شاعر اول تواب سرِراہے ملتے ہی نہیں اور اگر مل بھی جائیں تو اتنی عجلت میں ہوتے ہیں کہ دونوں ہی چائے پر اصرار نہیں کرتے۔ خط طویل ہو گیا رات کے تین بجنے کو ہیں۔ نذیرے کے پاس چائے بھی ختم ہو گئی۔ آخری بات یہ کہ آپ حافظ کے کلام سے فال نکالا کرتے تھے اور آپ کو اس پر اعتقاد بھی بہت تھا۔ جانے سے چند روز قبل آپ نے دیوانِ حافظ سے میرے بارے میں جو فال نکالی تھی وہ اب تک پوری نہیں ہوئی۔ حافظ سے ملاقات ہو تو میرے بارے میں دریافت کیجئے گا۔
ارے ہاں وہ نظم ا ٓپ کی تو ابھی نہیں مل سکی، کتابوں والی نظم برآمد ہو گئی ہے۔ نذر کرتا ہوں اور کہے دیتا ہوں…. آیا یاران رفتہ آیا، آیا ….
کتابوں کا قبرستان
لکڑی کے تختوں پہ کتابیں
یوں آپس میں جڑی ہوئی ہیں
جیسے قبرستان میں قبریں
جلدوں والی ساری کتابیں، پکی قبریں
غیر مجلد کچی قبریں
کچھ تازہ
کچھ بہت پرانی
کچھ بے حد بوسیدہ شکستہ
یہ مرقد ہیں ان لوگوں
موت کے بعد بھی جو ہیں زندہ ( نجم الاصغر شاہیا )
آپ کا اپنا
رضی الدین رضی