پروفیسر محمد امین اگر کبھی ڈاکٹر اے بی اشرف اورڈاکٹر انواراحمد کے درمیان چل رہے ہوں تو بالکل نظرنہیں آتے۔ہم سمجھتے تھے کہ انہوں نے یہ انکسار مجیدامجد سے سیکھا ہے لیکن جب انہوں نے شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھنا شروع کی ،ہائیکو میں اولیت کا مقام حاصل کرلیا اور اردو اکیڈمی کے جلسے باقاعدگی سے منظم کئے تو ہم سمجھ گئے کہ مجید امجد کی روح بھٹک کربھی ان کے قالب میں داخل نہیں ہوسکتی۔امین صاحب تو ہائیکو کے حوالے سے ملک کے طول وعرض میں اپنی پہچان کرارہے ہیں۔ادھر اردو اکادمی بھی ان کی شناخت میں شامل ہوگئی ہے۔امین صاحب ایک عرصہ سے اکیڈمی کے بلاشرکت غیرے سیکرٹری چلے آرہے تھے۔کوئی ایک برس پہلے پروفیسر انوار احمد نے سیکرٹری شپ سنبھالنے کی مقدور بھرکوشش کی لیکن جلد ہی اسے بھاری پتھرسمجھا اورچوم کرکہا”جس کاکام اسی کو ساجھے“۔یوں اکادمی دوبارہ امین صاحب کے نرغے میں آگئی۔ہم پروفیسر محمد امین کے حوصلے کی داد دیتے ہیں کہ آندھی ہویا طوفان وہ بہت باقاعدگی کے ساتھ اکیڈمی کے اجلاس میں پہنچتے ہیں اور اپنی تعریف سنتے ہیں۔لاہور کے حلقہ ارباب ذوق کو انجمن ستائشِ باہمی بننے میں کچھ وقت صرف ہواہوگا۔اردو اکادمی کو عزت کایہ مقام حاصل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
یہ رتبہِ بلند ملا جس کو مل گیا
اکادمی اپنے ہفتہ واراجلاس گلگشت کالونی کے ایک سکول میں منعقد کرتی ہے اور وجہ ظاہرہے کہ اکادمی کوبھی سکول کا درجہ حاصل ہے۔چنانچہ اس میں وہی شاعر اورادیب شرکت کرتے ہیں جنہوں نے اس سکول میں رجسٹریشن کروارکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو یہاں عرش صدیقی تونظرآئیں گے مگر عاصی کرنالی کبھی دکھائی نہیں دیں گے۔ایک دفعہ ہم نے پروفیسر امین سے گزارش کی تھی کہ اکادمی کااجلاس کسی کھلی جگہ منعقد ہونا چاہیے جہاں اکادمی کم ازکم کالج تو نظرآئے اورلوگ بھی آسانی سے پہنچ سکیں۔ہم نے گھنٹہ گھر یا نواں شہر کے علاقے میں کوئی جگہ تلاش کرنے کی پیشکش کی لیکن پروفیسر امین نے یہ مفت مشورہ نظرانداز کردیا ۔کہنے لگے گھنٹہ گھر میں پتھر زیادہ پڑتے ہیں اور نواں شہر ہوتل بابا کا مسکن ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اردواکادمی دراصل بوڑھے اصیل مرغوں کا آشیانہ ہے جوہرجمعے کی شام کو بیدارہوتے ہیں اور اکادمی میں بانگیں دینے کے لیے چلے آتے ہیں۔رہ گئے نوجوان لکھاری تو وہ ان جلسوں میں محض اس لیے شرکت نہیں کرتے کہ نئے قلمکاروں کی حوصلہ شکنی اردو اکادمی کے منشور میں شامل ہے۔ہاں اگر اکادمی کے کسی رجسٹرڈ رکن کا بیٹا ،بھانجا ،بھتیجا ،ہم زلف یا کوئی دوسرا عزیز آجائے تو اکادمی اسے شاعر بنا کر ہی بھیجتی ہے بلکہ اسے اپنا رہنماءبھی تسلیم کرلیتی ہے۔اس کی ایک مثال مصدق اقبال مصدق ہے ۔یہ نوجوان اکادمی میں آندھی کی طرح آیا ۔عرش صدیقی نے اسے اپنا رہنماءتسلیم کرتے ہوئے جلسے میں اعلان کیا کہ انہوں نے مصدق اقبال کی غزلوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔اس پر خودمصدق اقبال کوشرم آگئی اوروہ جیب سے رومال نکال کراپنے ماتھے کا پسینہ پونچھنے لگے ۔عرش صاحب نے تعریف کردی تو اے بی اشرف بھلا کیوں پیچھے رہتے۔سو انہوں نے تعریف کاسٹیرنگ پہلے گیئر سے نکال کر ٹاپ گیئر میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی سال میں مصدق اقبال مصدق ملتان کے منظرنامے سے غائب ہوگئے ۔اظہر علی اور ازرق عدیم کاحال بھی ایسا ہی ہوا۔کبھی ان کا طوطی بولا کرتاتھا اب انہیں پروفیسر امین بھی نہیں پوچھتے۔
کبیروالا سے خبرملی ہے کہ وہاں حسنین اصغر تبسم اور ساجد نجمی ترقی پسند ادبی کانفرنس منعقد کرانے والے ہیں۔کانفرنس کی تیاریوں میں شورزیادہ اور زور کم ہے۔اس کمی کوپورا کرنے کے لیے فخر زمان کی بھرپور معاونت حاصل کی جارہی ہے۔اس بات پر نہ جائیں کہ ترقی پسندوں نے کانفرنس کے لیے کبیروالا جیسا مضافاتی شہر ہی کیوں منتخب کیا۔بس یوں سمجھ لیں کہ اس شہر کے معصوم پنچھی جلدی زیردام آگئے۔فخرزمان کے تعاون سے کانفرنس کا سیاسی رنگ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ادھر یہ بھی خبر ملی ہے کہ شمیم ترمذی کی کتاب ”پھوا ر“کی تقریب بھی جلد ملتان میں منعقد ہوگی۔پندرہ روزہ دید شنید لاہور۔یکم اکتوبر1986ء
یہ رتبہِ بلند ملا جس کو مل گیا
اکادمی اپنے ہفتہ واراجلاس گلگشت کالونی کے ایک سکول میں منعقد کرتی ہے اور وجہ ظاہرہے کہ اکادمی کوبھی سکول کا درجہ حاصل ہے۔چنانچہ اس میں وہی شاعر اورادیب شرکت کرتے ہیں جنہوں نے اس سکول میں رجسٹریشن کروارکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو یہاں عرش صدیقی تونظرآئیں گے مگر عاصی کرنالی کبھی دکھائی نہیں دیں گے۔ایک دفعہ ہم نے پروفیسر امین سے گزارش کی تھی کہ اکادمی کااجلاس کسی کھلی جگہ منعقد ہونا چاہیے جہاں اکادمی کم ازکم کالج تو نظرآئے اورلوگ بھی آسانی سے پہنچ سکیں۔ہم نے گھنٹہ گھر یا نواں شہر کے علاقے میں کوئی جگہ تلاش کرنے کی پیشکش کی لیکن پروفیسر امین نے یہ مفت مشورہ نظرانداز کردیا ۔کہنے لگے گھنٹہ گھر میں پتھر زیادہ پڑتے ہیں اور نواں شہر ہوتل بابا کا مسکن ہے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اردواکادمی دراصل بوڑھے اصیل مرغوں کا آشیانہ ہے جوہرجمعے کی شام کو بیدارہوتے ہیں اور اکادمی میں بانگیں دینے کے لیے چلے آتے ہیں۔رہ گئے نوجوان لکھاری تو وہ ان جلسوں میں محض اس لیے شرکت نہیں کرتے کہ نئے قلمکاروں کی حوصلہ شکنی اردو اکادمی کے منشور میں شامل ہے۔ہاں اگر اکادمی کے کسی رجسٹرڈ رکن کا بیٹا ،بھانجا ،بھتیجا ،ہم زلف یا کوئی دوسرا عزیز آجائے تو اکادمی اسے شاعر بنا کر ہی بھیجتی ہے بلکہ اسے اپنا رہنماءبھی تسلیم کرلیتی ہے۔اس کی ایک مثال مصدق اقبال مصدق ہے ۔یہ نوجوان اکادمی میں آندھی کی طرح آیا ۔عرش صدیقی نے اسے اپنا رہنماءتسلیم کرتے ہوئے جلسے میں اعلان کیا کہ انہوں نے مصدق اقبال کی غزلوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔اس پر خودمصدق اقبال کوشرم آگئی اوروہ جیب سے رومال نکال کراپنے ماتھے کا پسینہ پونچھنے لگے ۔عرش صاحب نے تعریف کردی تو اے بی اشرف بھلا کیوں پیچھے رہتے۔سو انہوں نے تعریف کاسٹیرنگ پہلے گیئر سے نکال کر ٹاپ گیئر میں ڈال دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی سال میں مصدق اقبال مصدق ملتان کے منظرنامے سے غائب ہوگئے ۔اظہر علی اور ازرق عدیم کاحال بھی ایسا ہی ہوا۔کبھی ان کا طوطی بولا کرتاتھا اب انہیں پروفیسر امین بھی نہیں پوچھتے۔
کبیروالا سے خبرملی ہے کہ وہاں حسنین اصغر تبسم اور ساجد نجمی ترقی پسند ادبی کانفرنس منعقد کرانے والے ہیں۔کانفرنس کی تیاریوں میں شورزیادہ اور زور کم ہے۔اس کمی کوپورا کرنے کے لیے فخر زمان کی بھرپور معاونت حاصل کی جارہی ہے۔اس بات پر نہ جائیں کہ ترقی پسندوں نے کانفرنس کے لیے کبیروالا جیسا مضافاتی شہر ہی کیوں منتخب کیا۔بس یوں سمجھ لیں کہ اس شہر کے معصوم پنچھی جلدی زیردام آگئے۔فخرزمان کے تعاون سے کانفرنس کا سیاسی رنگ نکھر کر سامنے آگیا ہے۔ادھر یہ بھی خبر ملی ہے کہ شمیم ترمذی کی کتاب ”پھوا ر“کی تقریب بھی جلد ملتان میں منعقد ہوگی۔پندرہ روزہ دید شنید لاہور۔یکم اکتوبر1986ء
فیس بک کمینٹ