قارئین محترم آج ہم ملتان کے دوکالم نگاروں کاذکرکرناچاہتے ہیں جوبہت تیزی کے ساتھ اس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوارہے ہیں ۔ان میں سے ایک نام طفیل ابن گل اوردوسرا عارف معین بلے کا ہے ۔ ،طفیل ابن گل کو ہم اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ اقبال ارشد،اطہرناسک ،اخترشمار،نوازش علی ندیم اوررضی الدین رضی کے ساتھ ملتان کی سڑکوں پرآوارہ گردی کرتے تھے ۔آدھی رات کے وقت بھی اگران میں سے کسی کوملناہوتاتوشہرکی کسی سڑک یاریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر3پردستیاب ہوتے تھے ۔ملتان کایہ نوجوان کوئی ایک سال پہلے شہرچھوڑکرلاہورچلاگیا۔آج کل اس کاکالم ”امروز“میں شائع ہوتاہے اوراہل ملتان اس کے کالم پڑھ کرفخرمحسوس کرتے ہیں ،ملتان سے یوں تواوربھی کئی نوجوانوں نے ہجرت کی مگرکسی کو بھی ایسی کامیابی حاصل نہ ہوسکی جو طفیل کے حصے میں آئی۔طفیل ابن گل کی اس کامیابی میں اس کے استاد محترم عبدالقادرحسن کابھی بہت ہاتھ ہے جنہوں نے اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کے لئے اسے بہترمواقع فراہم کئے ۔ملتان میں طفیل ابن گل کے شب وروز آوارہ گردی اوراخترشماری میں گزرتے تھے۔لاہورمیں ”شب وروز “طفیل ابن گل کے کالم کانام ہے،طفیل ایک خوبصور ت انسان ہے اور خوبصورت لوگوں کادوست ہے ۔ہرکام میں خوبصورتی تلاش کرنایاخوبصورتی پیداکرنااس کانصب العین ہے ۔سناہے لاہورمیں بھی وہ کچھ ”خوبصورتیاں “تلاش کرچکاہے اورکچھ پیداکرچکاہے ،اہل ملتان عبدالقادرحسن کے اس حوالے سے توشگرگزارہیں کہ انہوں نے ملتان کے ایک فرزندکوملکی سطح پرمتعارف کرانے کی کوشش کی لیکن انہیں عبدالقادرحسن سے یہ شکایت بھی ہے کہ وہ خوداب غیرسیاسی باتیں کرنے سے گریزکرنے لگے ہیں ،عبدالقادرحسن کوجب امروزکاایڈیٹربنایاگیاتھاتوہماراخیال تھاکہ ان کے کالم کی بدولت ”امروز“کے قارئین کی تعدادمیں اضافہ ہوگالیکن افسوس کہ نہ اخبار لوگوں کے ہاتھوں میں نظرآتاہے اورنہ اخبار میں عبدالقادرحسن کاکالم موجودہوتاہے خدامعلوم ”امروز“جیسے تاریخی اخبار کامستقبل کیاہوگا؟یہ توہم سب جانتے ہیں کہ اس پرچے کاماضی بہت شاندارہے ۔
طفیل ابن گل کے لئے ان دعائیہ کلمات کے بعدہم عارف معین بلے کے لئے بھی کلمہ خیرکہناچاہتے ہیں ۔عارف معین بلے نے کچھ عرصہ پہلے ”نوائے وقت ملتان“میں ”آئینہ درآئینہ“کے نام سے ایک کالم لکھناشروع کیاہمیں معلوم نہیں تھاکہ یہ نوجوان بھی ہمارے نقش قدم پرچلتے ہوئے اہل ملتان کے دلوں میں کانٹابن کرکھٹکنے لگے گا۔عارف معین بلے نے یکے بعددیگرے ایسے جارحانہ کالم لکھے کہ خودہمیں ان سے خوف آنے لگاہے ۔ان کاتازہ کالم غزالہ خاکوانی کی کتاب ”میرے پرنہ باندھو“کی تقریب تعارف کے حوالے سے ہے۔کوئی ایک ماہ پہلے ہم نے بھی اس موضوع پرکالم باندھاتھا۔ہمارے کالم کی اشاعت کے بعد جوواویلاہواممکن ہے اب عارف بلے کوبھی اس کاسامناکرناپڑے ۔عارف معین بلے نے صوبائی وزیر چوہدری عبدالغفور کے شہرہ آفاق خطبے کاذکرکرتے ہوئے لکھاہے کہ ”انہوں نے بڑی سادگی کے ساتھ غزالہ خاکوانی کی فنی زندگی کابھانڈاپھوڑدیا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غزالہ خاکوانی کو شدت کے ساتھ ساتھ یہ احساس ہوتارہے گاکہ انہیں اپنی پہلی کتاب کی تقریب کے لئے کسی ایسی شخصیت کومدعوکرناچاہیے تھاجوان کے فنی سفرکی دشواریوں اورراستے کے نشیب وفرازسے آگاہ نہ ہوتی “آگے چل کرکالم نگارمزیدلکھتے ہیں”اب آئندہ غزالہ میرٹ کی بنیادپربھی کسی مشاعرے میں شریک ہوئیں توسمجھا یہی جائے گاکہ اس تقریب میں بھی ان کی صوبائی وزیرکے توسط سے رسائی ہوئی اس طرح شاعرہ نے اپنے راستے میں خودکانٹے بوئے اوراپنے پیروں کوخودباندھ لیاہے“عارف معین بلے کاکالم پڑھ کرہمیں خوشی ہوئی کہ ہماری آوازمیں آوازملانے والاکوئی اوربھی موجودہے وگرنہ پہلے تو صرف ہم ہی سنگ زنی کانشانہ بن رہے تھے کل ہی ہم نے لوگوں کے پتھروں سے بچنے کے لئے ایک ہیلمٹ خریداہے اب ایک ہیلمٹ ہم عارف معین بلے کے لئے بھی خریدرہے ہیں سناہے کہ ایک اکیلا اوردوگیارہ ہوتے ہیں۔
( روزنامہ جسارت کراچی15اپریل 1988)
فیس بک کمینٹ