آج جب ہم یہ کالم تحریر کررہے ہیں توبجٹ کی بحث ختم ہوچکی ہے۔اس بجٹ نے قیمتوں میں کتنا اضافہ کیا ، تنخواہیں کتنی بڑھیں اور ٹیکسوں کے دائرہ کار میں کسے کسے شامل کیاگیا۔یہ بحث بھی سردست ختم ہی سمجھیں کہ ایک منتخب وزیر کی موجودگی کے باوجود ایک غیرمنتخب مشیر کو ہنگامی بنیادوں پروزیر بنانا کیوں ضروری ہوگیاتھا۔یہ سب بحثیں اس لیے ختم ہوئیں کہ اس کے بعد بحث کرنے والوں کو گفتگو کے لیے بلاول بھٹو اور عمران خان کے جلسے مل گئے۔
بلاول بھٹو نے شہر قائد میں جلسہ عام سے خطاب کیا ۔ایم کیو ایم کومستقل قومی مصیبت قراردیتے ہوئے کھری کھری سنائیں۔ کچھ وعدے اور کچھ دعوے کیے اور کراچی میں طویل عرصے کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنا جھنڈا لہرانے کا موقع ملا۔جھنڈا گاڑنے کا موقع بھی ملے گا یا نہیں اس بارے میں سردست کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ہاں البتہ چینلوں کے بقول عمران خان نے لاہور میں ضرور جھنڈا گاڑ دیا۔ عمران خان کا جلسہ لاہور میں تھااورا اس مقام پرتھا جہاں 1986ء میں محترمہ بے نظیربھٹو نے ایک تاریخی جلسے سے خطاب کیاتھا۔وہ بھی اپریل کامہینہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کا جلسہ 10اپریل اور عمران خان کا 29اپریل کومنعقد ہوا۔
بے نظیر کا لاہور کاجلسہ ہمیشہ سے سیاسی قیادتوں اور حکمرانوں کے لیے ایک پیمانہ بن چکا ہے۔جلسوں کی بات جب بھی ہوتی ہے اور شرکاء کی تعداد کے بارے میں جب بھی اندارے لگائے جاتے ہیں تو گفتگو کاآغاز بے نظیر بھٹو کے جلسے سے ہی ہوتا ہے۔
جیسے پاکستان کی سیاست گزشتہ چارعشروں سے ذوالفقارعلی بھٹو کے حامیوں اور مخالفین کے گرد گھوم رہی ہے بالکل اسی طرح پاکستان کے سیاسی جلسے بھی 1986ء کے بعد سے بے نظیر بھٹو کے جلسے کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔خود محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں بھی ان کا اپنا جلسہ ہی ان کے سامنے آن کھڑا ہوتا تھا۔ اور جب وہ 2007ء میں مشرف کے دور حکومت کے دوران جلاوطنی ختم کرکے 18اکتوبر کو کراچی پہنچی تھیں اور وطن واپسی پر ان کے استقبال کے لیے ملک بھر سے لوگ کراچی میں جمع ہوئے تھے تو اس وقت بھی یہی سوال سامنے آیاتھا کہ کیا بے نظیر بھٹو اپنا 1986ء والا ریکارڈ توڑ سکیں گی ؟
اور کیابے نظیربھٹو کا کراچی میں استقبال لاہور والے استقبال سے بڑا ہو گا؟ عمران خان نے جب لاہور میں جلسے کا اعلان کیا تو ان کے حامیوں نے کہا کہ عمران خان لاہور میں نئی تاریخ رقم کرنے جار ہے ہیں۔ اور یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوگاتو اس وقت سے اس جلسے کا موازنہ بھی 1986ء والے جلسے سے کیا جا رہا ہے۔ وہ جلسہ بھی اسی مینار پاکستان کے سائے میں منعقد ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس زمانے میں جلسہ گاہوں میں کرسیاں رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ بس خلق خدا ہوتی تھی اور جو جہاں سما سکتاتھا سما جاتا تھا۔ ان جلسوں اور آج کے جلسوں میں زمین آسمان کافرق ہے۔
1986ء کی آبادی اورآج کی آبادی کاموازنہ کرنے کے بعدحالیہ جلسے کا 1986ء کے جلسے کے ساتھ مقابلہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔اس زمانے میں جلسہ گاہ لیڈروں کے آنے سے پہلے ہی بھرجاتے تھے۔ اورقائدین کو خطاب سے پہلے یا جلسہ گاہ میں آنے سے پہلے حاضرین کی تعداد کے بارے میں استفسار نہیں کرنا پڑتا تھا۔اس زمانے کے لیڈر جلسہ گاہ سے
دور بیٹھ کر یہ انتظار نہیں کیاکرتے تھے کہ عوام جلسہ گاہ میں پہنچ جائیں اورلوگوں کی تعداد ذرا معقول ہوجائے تو پھرہم بھی وہاں پہنچیں۔
1986ء میں تو یہ گراؤنڈ 9اپریل کوہی بھرنا شروع ہوگیاتھا جب محترمہ بے نظیر بھٹو ابھی لندن سے روانہ بھی نہیں ہوئی تھیں۔ اس جلسے کے ہم عینی شاہد ہیں۔ ہماری طرح اور بھی بہت سے لوگ 1986ء کے اس جلسے میں موجودتھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ تاریخی منظردیکھا ۔ہم آج بھی اس بات پر فخرکرتے ہیں کہ ہم اس منظرکاحصہ رہے جو شاید اب چشم فلک دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکے گی۔پیپلزپارٹی کے حامیوں کو یقیناً اس بات پر اعتراض ہوگا کہ ہم عمران خان کے جلسے کا بے نظیر کے جلسے کے ساتھ موازنہ کیوں کررہے ہیں۔تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے اورتاریخی واقعات کا عینی شاہد ہونے کے ناتے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ جب بعض لوگوں کی جانب سے تاریخ کو مسخ کیاجارہا ہو تو ہم اپنی یادوں کے خزانے سے وہ واقعات تاریخ کے سپرد کردیں جنہیں چھپانے یا مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔
ایک سوال اور بھی سامنے آتا ہے کہ کیا جلسوں میں عوام کی تعداد کو کسی کی کامیابی یا ناکامی کی ضمانت قراردیا جاسکتا ہے۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں جلسے سیاسی یا فکری مباحث کو جنم دینے کی بجائے محض پکنک میں تبدیل ہوچکے ہوں وہاں یہ بحث بھی غیرضروری ہوجاتی ہے کہ قائد اعظم کے چودہ نکات اور عمران خان کے گیارہ نکات میں کوئی مماثلت بھی ہے یا یہ نکات محض لفظوں کی بازی گری ہیں؟
اگر یہ عمران خان کا انتخابی منشور ہے توہمیں عمران خان کی ذہانت کی داد دینا چاہیے کہ انہوں نے خارجہ پالیسی کو اپنے منشور میں شامل ہی نہیں کیا۔شاید انہیں معلوم ہے کہ جن شرائط پر انہیں اقتدار دیا جانا ہے ان میں خارجہ پالیسی پر ان کی کوئی گرفت ہی نہیں ہو گی۔ خارجہ پالیسی تو ویسے بھی ہماری ریموٹ کنٹرول حکومتوں میں کہیں اور سے کسی ریموٹ کے ذریعے ہی چلائی جارہی ہوتی ہے۔ایسے میں اپنے منشور یا ’’نکات‘‘ کو بھاری بھرکم دعووں یا وعدوں سے آلودہ کرنا مناسب ہی نہیں ہوتا۔ہمیں فکر صرف ایک بات کی ہے اور وہ یہ کہ عوام جسے نجات دہندہ کے طورپر دیکھ رہے ہیں کیا وہ انہیں ان مسائل سے واقعی نجات دلاسکے گا اور کرپشن کے خلاف جہاد کے نعرے پر اقتدار میں آنے والوں کے ساتھ کرپٹ لوگوں کا جو ہجوم ایوان اقتدار میں داخل ہونے والا ہے کیا وہ ہجوم اپنے لیڈر کو بے دست وپا تو نہیں کردے گا؟
اور سب سے اہم نکتہ تو یہ ہے کہ اگر عمران خان کو آصف زرداری کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی تو کیا وہ کل کے چور اورلٹیرے کو اسی طرح گلے لگا لیں گے جیسے کہ خود زرداری صاحب نے ق لیگ کو اپنے گلے لگایاتھا؟
ہمیں اس سوال کاجواب تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہاں حکومتیں کیسے بنتی ہیں اور لوگوں کے ووٹ کی کیا حیثیت ہے ۔اگر عمران خان کو آصف زرداری کے ساتھ ہاتھ ملانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا تو پھر ہمیں اورآپ کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی سے یہ دریافت کریں کہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنے والا محاورہ کب استعمال ہوتا ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ