ہم گزشتہ دوماہ سے اگر غیرحاضر تھے تو وجہ صرف اورصرف یہ تھی کہ ہم خودبھی کچھ آرام کرناچاہتے تھے اور اہل ملتان کوبھی کچھ دیر کے لیے سکھ کاسانس لینے کی مہلت دیناچاہتے تھے۔وہی ہوا کہ ملتان والوں نے نہ صرف ہماری غیرحاضری کے دوران چین کی بانسری بجائی بلکہ بعض دل جلو ں نے تو شادیانے بھی بجاڈالے۔ہماری غیر حاضری کے غلط معنی لیے گئے۔دشمنوں نے طرح طرح کی ہوائیاں اڑائیں۔کسی نے کہاکہ ہوتل بابا بے چارے پہلے ہی 60برس کے تھے مرکھپ گئے ہوں گے۔کسی نے راگ الاپا کہ باباجی کی ادبی موت واقع ہوگئی ہے اوراب وہ بے چارے کبھی بھی اپنا درشن نہ کراسکیں گے۔سنا ہے کہ کچھ لوگوں نے ہماری غیرحاضری پر اظہارمسرت کے طورپر دیگیں بھی پکواڈالیں اورچاولوں کاکچھ حصہ تبرک کے طورپر کبیروالہ اور تونسہ شریف بھی بھجوادیا۔ہم ان تمام کرم فرماﺅں کے شکرگزارہیں اورانہیں یہ مژدہَ جاں فزا سنانا چاہتے ہیں کہ ”پھرآگیا ہوں گردشِ دوراں کوٹال کر“
صاحبو ہم اگرچہ آپ تک گزشتہ دوماہ کے دوران تازہ ترین ادبی معرکہ آرائیوں کی رپورٹ نہ پہنچا سکے لیکن خود اس دوران مسلسل ہمارا ادبی دنیا کے ساتھ رابطہ رہا۔ادبی تقریبات میں ہم نے بھرپورشرکت کی ۔نئی نئی کتابوں کامطالعہ کیا اور اردواکیڈمی اور بابا ہوٹل کی سیاست سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ایک چکر ہم نے خانیوال کابھی لگایا واپسی پر معلوم ہوا کہ اردو اکادمی میں ایک زوردارمعرکہ ہواہے۔بات اگرچہ کچھ پرانی ہوگئی ہے لیکن اتنی پرانی بھی نہیں کہ اسے یکسر نظرانداز کردیاجائے۔ہوا یہ کہ اکادمی کے ایک اجلاس کی صدارت عرش صدیقی کررہے تھے۔صلاح الدین حیدر اس اجلاس میں موجودتھے۔صلاح الدین حیدر کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ وہ ملتان کے انشائیہ نگاروں میں اہم مقام رکھتے ہیں سول لائنزکالج میں لیکچرار ہیں اورہماری طرح وہ بھی طائرِلاہوتی سے بہت محبت کرتے ہیں۔بات کھری کرتے ہیں خواہ دوسراتلملااٹھے۔طالب علمی کے زمانے میں بہت سی ہنگامہ آرائیاں کرچکے ہیں اب بھی موقع ملے تو اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔الغرض ہمیں اگرہوتل بابا کے نام سے پکارا جاتا ہے تو آپ صلاح الدین حیدر کو ہوتل چاچابھی کہہ سکتے ہیں۔بات ہورہی تھی اکادمی کے اجلاس کی۔عرش صاحب نے صلاح الدین حیدر کو ان کے کسی تنقیدی جملے پرٹوکا۔بس پھرکیاتھا حیدرصاحب نے آستینیں چڑھالیں اورعرش صاحب کو کھری کھری سنادیں۔اطہرناسک اور اے بی اشرف اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ان کاکہنا ہے کہ صلاح الدین حیدر نے جو پہلاجملہ کہا وہ یہ تھا” محترم آپ سر پرہیٹ رکھ کر اور منہ میں پائپ دبا کر جو جی چاہتا ہے کہہ دیتے ہیں “ ۔ آپ خوداندازہ کریں کہ اس وقت محفل میں کیساسکوت طاری ہواہوگا۔احمد خان درانی نے جب صلاح الدین حیدر کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی تو حیدرصاحب نے انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا اوردرانی صاحب کو بھری محفل میں خفیہ والوں کاآدمی قراردے دیا۔عرش صاحب نے صدرکی حیثیت سے اپنے اختیارات بروقت استعمال کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا۔یوں مزید ہنگامہ آرائی نہ ہوسکی۔سنا ہے بعدازاں احباب نے صلاح الدین حیدر کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور عرش صدیقی کے ساتھ ان کی صلح کرادی۔
مطبوعہ : پندرہ روزہ دید شنید لاہور۔16جون1987ء