دھمال ڈالتا جاؤں گا اس کی جانب میں
یہ دھمال ایک جست میں ہمیں صدیوں کا سفر طے کرا دیتی ہے ۔ہمیں اس لمحے میں پہنچا دیتی ہے جہاں سورج سوا نیزے پر آنے کی روایت بیان کی گئی اور جہاں دودھ کے لبالب پیالے پر گلاب رکھا گیا۔اس گلاب کی مہک آج بھی ملتان کی فضاؤ ں میں محسوس ہوتی ہے۔
ملتان نے اسی گلاب کی مہک کے ساتھ صدیوں کا سفر طے کیا ۔پانچ ہزار سال کے دوران شہر کیسے تبدیل ہوا یہ سب کچھ چند صفحات میں بیان کرنا ممکن تو نہیں لیکن اسے بیان کرنے کی کوشش تو کرنی چاہئے۔ہزاروں سال پہلے کا ذکر چھوڑئے آپ گزشتہ چند عشروں کے دوران رونما ہونے والی تبدیلیوں پر ہی ایک نظر ڈال لیجئے ۔
نالہ علی محمد ملتان کی سب سے بڑی کچی آبادی ؟
پل موج دریا پر جس جگہ آج فلائی اوورز کا جال ہے اسی جگہ ایک نہر بہتی تھی۔یہ نالہ علی محمد تھا لیکن اسے نالہ ولی محمد کے نام سے جانا جاتا تھا ۔جس جگہ آج ملتان آرٹس کونسل کی عمارت ہے عین اسی جگہ وہ نالہ یا نہر بہتی تھی۔آرٹس کونسل کے عقب میں جو پارک ہے اور اس سے آگے ایم ڈی اے کے جو دفاتر ہیں یہ سب اسی نالہ علی محمد کی گزرگاہ تھی۔جنوب کی سمت یہ نالہ محکمہ انہار کی کالونی سے گزرتا ہوا لانگے خان کے باغ کے قریب سے سول ہسپتال والی سڑک عبور کرتا ہوا حسن پروانہ روڈ کو اس جگہ سے عبور کرتا تھا جسے پل شوالہ (پل شِو والا)کہا جاتا ہے ۔اس سے آگے محلہ سوتری وٹ کی جانب پارک کے نام پر جو ایک چار دیواری تعمیر کی گئی ہے یہ اسی نالے کی گزر گاہ تھی۔ضلعی حکومت کے نقشوں میں یہ نالہ اب بھی موجود ہے لیکن اس کی گزر گاہ پر اب کچی آبادیاں ہیں ۔یہ موجودہ ملتان کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے اور اس میں سے بیشتر پر شہر کے معززین قابض ہیں۔اسی طرح جس جگہ چند بر س قبل کارڈیالوجی سینٹر تعمیر ہوا یہ نواب مظفر خان شہید کا محل تھا ۔اسے شیش محل کے نام سے جانا جاتا تھا ۔یہ وہی نواب مظفر خان شہید تھے جنہوں نے اپنے جوان بیٹوں کے ہمراہ ملتان کی آن پر اپنی جان نچھاور کی ۔یقینا نواب کے ساتھ عوام نے بھی شہر کی آن پر جان نچھاور کی ہو گی لیکن تاریخ عوام کے بارے میں تو خاموش ہی رہتی ہے۔صرف تاریخ ہی خاموش نہیں رہتی خود عوام بھی تو خاموش رہتے ہیں ۔
تاریخ کیا بتاتی ہے مخدوموں کے بارے میں ؟
تاریخ تو بتاتی ہے کہ کس طرح یہاں کے مخادیم نے درباروں کے ساتھ روابط رکھے اور کس طرح یہاں کے مخدوموں اور وڈیروں نے برطانوی راج کو مستحکم کرنے کے لئے ملتان میں سیکڑوں ہزاروں افراد کا قتلِ عام کرایا اور اس کے عوض انعام و اکرام اور جاگیریں حاصل کیں لیکن عوام اس پر خاموش رہتے ہیں ۔وہ آج بھی انہی مخدوموں اور گدی نشینوں کو محترم اور معتبر سمجھتے ہیں ۔تاریخ تو بہت کچھ بتاتی ہے لیکن ہم میں سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا ۔پھر ہم تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔کبھی سرکاری سطح پر اور کبھی درباری سطح پر۔یہ بھی تاریخ کا ایک جبر ہے کہ ہم بہت سے نا معتبر لوگوں کو معتبر سمجھتے ہیں ۔کبھی عقیدت میں ،کبھی کسی لالچ میں اور کبھی کسی خوف کی بنا پر۔غلط لوگوں کو معتبر بنانے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جیسے جیسے وقت کی گرد پڑتی ہے ان کے اعتبار اور تقدس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔تاریخ کا جبر یہ بھی ہے کہ بہت سے مقامات پر و ہ خاموش رہی ہے ۔
ٌ( جاری )