پی آئی اے ہائی جیکنگ اورخونی برج میں شاکر سے ملاقات
لیکن کمپنی باغ اور سروسز کلب کا ذکر چھوڑیں ۔بات ملتان کے ساتھ اس رومان کی کرتے ہیں جو شاکر حسین شاکر کے طفیل پروان چڑھا۔شاکر ایک سَچا اور سُچا ملتانی ہے ۔ایک ایسا ملتانی جو اس شہر کے فنکاروں سے پیار کرتا ہے ،یہاں کے مصوروں ، خطاطوں اور ہنر وروں کی فلاح کے منصوبے بناتا ہے ۔وہ پرانے ملتان کی تاریخی النگ کے باہر خونی برج کے قریب ایک محلے میں پیدا ہوا ۔مجھے یاد ہے مارچ 1981ءمیں جن دنوں پی آئی اے کی ہائی جیکنگ کا ڈرامہ جاری تھا اور اس وقت کے ڈکٹیٹر نے اس واقعے کو الذوالفقار سے منسوب کر رکھا تھا انہی دنوں ایک صبح میں اس سے ملنے کے لئے پہلی بار اس کے گھر گیا تھا ۔اس وقت ہمیں سیاست کی زیادہ سوجھ بوجھ نہیں تھی لیکن اس زمانے میں بھی ہم یہ ضرور جانتے تھے کہ طیارے کا اغوا ایم آر ڈی کی اس تحریک کو ناکام بنانے کی ایک کوشش ہے جو سندھ میں زورپکڑ چکی تھی ہم نہیں جانتے تھے کہ اس طیارے کی آڑ میں بہت سے سیاسی کارکنوں پر ظلم ہونا تھا ۔ اور جیلوں میں موجود پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو زبردستی جلا وطن ہونا تھا ۔ کارکن کہتے تھے ہمیں جلا وطن ہر گز نہ کرو ہم کہیں نہیں جانا چاہتے لیکن حکمران کہتے تھے ہم تمہیں جلا وطن ضرور کریں گے کہ تمہاری رہائی کا مطالبہ مرتضیٰ بھٹو نے کیا ہے ۔ پھرعالمی اخبارات میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں ایک خاتون کو رن وے سے زبردستی طیارے میں سوارکرایاجارہاہے۔ یہ فرخندہ بخاری کی تصویر تھی۔فرخندہ بخاری پیپلزپارٹی کے ان 50کارکنوں میں شامل تھیں جنہیں مختلف جیلوں سے نکال کر جلا وطن کردیاگیا اور یہ تاثر دیاگیا کہ ان افراد کو طیارہ آزاد کرانے کے لیے جلا وطن کیاجارہاہے۔یہ سب قیدی پہلے شام اورپھرمختلف ممالک سے ہوتے ہوئے لندن پہنچے۔شایدہم نے اس پہلی ملاقات میں ان قیدیوں کی بات ضرور کی تھی کہ اس روز کے اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ حکومت الذوالفقار کے مطالبے پر اس کے کارکنوں کو رہا کررہی ہے۔ فرخندہ بخاری کی جلاوطنی کی کہانی ہم نے 1986ء میں ان کے شوہر نامور شاعر شہرت بخاری کی زبانی موہنی روڈ لاہور پر واقع ان کے گھر میں طفیل ابن گل کے ہمراہ سنی تھی ۔
گنے کے جوس کی ریہڑی تو اب بھی موجود ہے
شاکر نے چوک خونی برج میں گنے کے جوس سے میری تواضع کی تھی ۔شہر میں بہت سی تبدیلیاں آئیں ،کئی دوکانیں ختم ہوئیں ،کئی عمارتیں مسمار ہو گئیں لیکن وہ گنے کی ریہڑی آج بھی اسی چوک میں موجود ہے۔اور شاید وہ اب تک امتداد ِ زمانہ کااسی لئے شکار نہیں ہوئی کہ وہاں شاکر نے پہلی بار میری تواضع کی تھی۔محبت کے کئی رنگ ہیں اور ان رنگوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ زمانے کے نشیب و فراز ان پر اثر انداز نہیں ہوتے ،محبت سلامت رہے تو محبت کی ہر نشانی بھی سلامت رہتی ہے۔جیسے چھاؤ نی والی جھیل پر ایک درخت بہت دیر تک سلامت رہا جس کے تنے پر دو ناموں کے پہلے حروف کھرچے گئے تھے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درخت کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا تو وہ نام بھی بڑے اور مدھم ہونے لگے اور پھر رفتہ رفتہ وہ اسی درخت کی وسعت میں کہیں گم ہو گئے ۔پھر ایک روز اس جھیل کو وسعت دی گئی تو وہاں کا سارا نقشہ بھی تبدیل ہو ااور اس ردو بدل میں وہ درخت بھی گم ہو گیا۔محبت کی نشانی کھو گئی اور نشانی بھلا کیسے رہتی محبت بھی تو کہیں کھو چکی تھی ۔
کس گلی سے کون نکلتا ہے ؟
لیکن شاکر سلامت رہے اس کی محبت سلامت رہے اور اس محبت کی تمام نشانیاں بھی سلامت رہیں جیسے ملتان سلامت ہے اور ملتان کا چوک خونی برج سلامت ہے اور اس چوک میں گنے کی وہ ریہڑی سلامت ہے ۔میں جب بھی خونی برج چوک سے گزرتا ہوں گنے کی اس ریہڑی کو ضرورمڑ کر دیکھتا ہوں اور اگر کوئی میرے ساتھ ہو تو اسے بتاتا ہوں یہ وہ جگہ ہے جہاں شاکر نے مجھے پہلی بار گنے کا جوس پلایا تھا۔جیسے میں گلگشت کالونی جاتے ہوئے ڈاکخانے کے سامنے والے موڑ سے گزرتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ یہاں میری پہلی بار قمر رضا شہزاد سے ملاقات ہوئی تھی۔آج مضمون لکھنے بیٹھا اور خونی برج کا اس مضمون میں سکندر اعظم کے بعد شاکر حسین شاکرکے حوالے سے دوبارہ ذکر آیا تو مجھے یہ بھی یاد آیا کہ جب میں 1981ءمیں پہلی بار خونی برج گیا تو مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس مقام کی کیا تاریخی اہمیت ہے۔اور مجھے ہی نہیں شاکر جو اس علاقے میں مقیم تھا اسے بھی تو علم نہیں تھا کہ جس جگہ وہ میٹھے جوس سے میری تواضع کر رہا ہے اسی جگہ پر یا اس کے آس پاس ہی کہیں سکندرِ اعظم کو زہر بھر اتیر لگا تھا جو بعد ازاں اس کی موت کا باعث بنا۔اس کے لئے تو خونی برج کے بس دو ہی حوالے معتبر تھے اور وہی اس نے مجھے بتائے تھے کہ یہاں النگ سے ہر سال استاد شاگرد کے تعزیے نکلتے ہیں جو حرم گیٹ پر اختتام پذیر ہوتے ہیں اور اس ساتھ والی گلی سے روزانہ صبح ایک لڑکی نکلتی ہے جو فلاں سکول تک جاتی ہے ۔
( جاری )