محبت فاتح عالم
اور کتنی خوبصورت بات ہے کہ جس مقام سے فاتح عالم سکندر خالی ہاتھ پسپا ہواوہیں سے یہ فقیر شاکر کی محبتیں سمیٹ لایا اور پھر انہی محبتوں کے طفیل ہم دونوں نے دنیا کو نہ سہی ملتان کو تو فتح کر ہی لیاکہ ہماری دنیا تو ملتان ہی ہے ۔اقبال نے ”محبت فاتحِ عالم“یونہی تو نہیں کہا تھا ۔
255 کالے منڈی اور مجلس فکر نو
شاکر کا بچپن اور لڑکپن کا کچھ حصہ اندرونِ شہر کی گلیوں میں گزرا ۔وہ اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ میں پڑھتا تھا ۔روزانہ پیدل سکول جاتا راستے میں آتا جاتا چوک حرم گیٹ پر واقع عزیز بک سٹال پر رک کر بچوں کی کہانیاں اور رسالے دیکھتا یا وہیں کھڑے کھڑے پڑھ لیتا تھا ۔اس کے والد صاحب حاجی جعفر حسین زرگر ہیں ان کی کالے منڈی میں دکان تھی ۔شاکر حرم گیٹ میں صابن والی گلی کے راستے اس دکان پر بھی جاتا ۔255کالے منڈی ملتان کا ایڈریس تو خود مجھے ابھی تک یاد ہے کہ جب ہم نے کالج کے زمانے میں ”مجلسِ فکرِ نو“قائم کی تو اس کی خط وکتابت کے لئے لیٹر پیڈ پر یہی ایڈریس شائع کیا تھا۔پھر ایک طویل عرصہ تک میر ی اپنی ڈاک بھی اسی پتے پر آتی رہی۔ مجالسِ عزا میں شرکت لئے شاکر کو بچپن ہی سے امام باگاہ شاہ گردیز، امام بارگاہ مہاجرین، یا حویلی مرید شاہ جانا ہوتا تھا ۔اسی طرح عاشورہ کے جلوسوں میں شرکت کے لئے بھی وہ اندرون ملتان کے گلی محلوں سے گزرتا تھا۔
بابو محلہ اور 410 صدر بازار کریم منزل
میرا معاملہ مختلف تھا میرا بچپن چھاؤ نی کے قریب صدر بازار کے بابو محلے میں گزرا ۔اوپل سٹریٹ پر واقع ہمارا مکان کریم منزل 410 صدر بازار کے نام سے جانا جاتا تھا ۔یہ سڑک میرے تایا میجر ضیاء الدین اوپل کی وجہ سے اوپل سٹریٹ کہلاتی ہے اور میرے دادا شیخ عبدا لکریم کے نام پر اس مکان کو کریم منزل کہا جاتا تھا ۔ 410 نمبر یہ مکان اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔ اس کی ایک نشانی صرف میرے شناختی کارڈ پر مستقل پتے کے طور پر موجود ہے اور میں نے اسے شناختی کارڈ سے اس لئے ختم نہیں کرایا کہ جس مکان میں میرا بچپن گزرا اس کی یاد کم از کم میرے شناختی کارڈ پر تو موجود رہے اور مجھے احساس دلاتی رہے کہ کس طرح مجھے اسلام کے نام پر وراثت سے محروم کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ دادا کی زندگی میں اگر پوتا یتیم ہو جائے تو وہ باپ کی وراثت کا حق دار نہیں ہوتا
ہم شہر کسے کہتے تھے ؟
چھاؤنی کے علاقے میں رہنے والے بوہڑ گیٹ ،گھنٹہ گھر اور اس سے آگے کے علاقے کو شہر کہتے تھے۔ اور شہر کا سب سے معروف حوالہ یہ تھا کہ وہاں سے چیزیں سستی ملتی تھیں۔عید پر کپڑوں جوتوں کی خریداری کے لئے میں اپنی والدہ کے ساتھ تانگے پر بیٹھ کر شہر جاتا تھا ۔مہینے کے شروع میں میرے چچاکچن کا سامان لینے کے لئے گڑمنڈی جاتے تھے تو کبھی کبھار میں بھی ان کے ساتھ سائیکل پر سوار ہو جاتا ۔واپسی پر قلعے کے نیچے حسین آگاہی والی سڑک پر ایک دکان سے ہم سموسے کھاتے ،ان سموسوں کا ذائقہ ہمارے علاقے میں تیا ر ہونے والے سموسوں سے مختلف ہوتا تھا ۔سموسوں کی دکان کراؤن سینما کے سامنے اس جگہ ہوتی تھی جہاں اب دودھ سوڈا کی دکان کی وجہ سے ٹریفک جام رہتی ہے ۔
حسین آگاہی ، اماں جی کا گھر اور عید میلاد کے جلوس
شہر کا ایک اور حوالہ حسین آگاہی کے باہر اماں جی کا گھر تھا۔یہ اماں جی رشتے میں میری والدہ کی دادی اوراداکار خالد بٹ اور زاہد سلیم مرحوم کی والدہ تھیں ۔ہم اماں جی کے گھر سال میں ایک دو بار جاتے تھے اور عید میلادالنبی کے موقع پر توضرور جاتے تھے کہ ان کے گھر کے باہر سے عید میلاد کے روایتی جلوس گزرتے تھے ۔عربی لباس میں اونٹوں پر سواربچے ،ساتھ میں نعت خواں پارٹیاں ،اس زمانے میں ان جلوسوں میں بچوں کو فوجی وردیا ں نہیں پہنائی جاتی تھیں ۔مذہبی اجتماعات اور تقریبات میں جنگی ماحول ضیاءدور میں پیدا کیا گیا ۔سو ہم وہ جلوس دیکھنے کے لئے بھی شہر جاتے تھے ۔
( جاری )