ایک اور جنگ، ایک اور حملہ
اور پھراس واقعہ کے چھ سال بعد ایک اور جنگ ہوئی۔ ایک اورحملہ ہوا۔ شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑک پر ملتان سے مظفرگڑھ جاتے ہوئے ایک دربار حضرت شیر شاہ کابھی ہے۔ یہاں تیل کے ڈپو ہیں۔ ان ڈپوﺅں میں اس حملے کے بعد آگ لگ گئی جو کئی روز تک بھڑکتی رہی۔ ملتان کے لوگ اپنی چھتوں سے اس دھوئیں کے بادل دیکھتے تھے جو آسمان کی جانب بلند ہوتے تھے لیکن اس دھوئیں میں پرانے شہر کے شعلوں اور دھوئیں کے ساتھ دم توڑتی ہوئی وہ چیخیں سنائی نہیں دے رہی تھیں جو ملتان پر انگریز کے قبضے کے دوران گولہ باری سے ہونے والے دھماکوں اور آتشزدگی کے بعد سنائی دی تھیں۔
نیازی ہتھیار ڈالتا ہے
وہ بچہ جو 1965ءکے حملے میں چیخیں مارکر اٹھ بیٹھا تھا اورجسے اس کی ماں رات بھر سینے سے لگا کر بیٹھی رہی تھی۔ وہ اب اپنے بچپن میں جنگ کی باتیں سنتا تھا۔ اس کے دادا روزانہ صبح شام بی بی سی پر ”جہاں نما“اور ”سیربین“میں جنگ کی تفصیلات سنتے تھے۔ پھرایک شام اس نے دیکھا کہ گھرمیں ریڈیو پر ایک تقریرسنائی دے رہی ہے۔ ایک ٹرانسسٹر تھاجس کے پاس بیٹھے اس کے دادا غور سے وہ تقریر سن رہے تھے۔ ”دشمن ہماری لاشوں سے گزرکررہی مشرقی پاکستان فتح کرے گا“۔ جنرل نیازی کی آواز فضاؤں میں گونجی اور اس کے دادا کاچہرہ خوشی سے دمک اٹھا لیکن اس سے اگلے روز ہی اس بچے نے دیکھا کہ اس کی والدہ رو رہی ہیں۔ آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ گلوگیر آواز میں اس کی ماں نے بتایا کہ ڈھاکہ پر قبضہ ہوگیاہے۔ دادا غصے میں بولے ”حرام زادے نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں“۔
ہم ایسے لشکری اس جنگ میں ہتھیار کیوں ڈالیں ؟
کہ ایسا کام تو اپنے سپہ سالار کرتے ہیں
ہر گھر میں موت جیسا واقعہ
ڈھاکہ کیا ہے اوراس پر قبضہ کیا ہوتا ہے یہ اسے ہرگز معلوم نہیں تھا لیکن اس بچے کو اتنا اندازہ ضرورتھا کہ یہ کوئی موت جیسا واقعہ ہے۔ اوراس روز موت کا ہی تو منظرتھا۔ گھر میں کچھ بھی نہ پکا تھا۔ ہرطرف سناٹاتھا۔ اس بچے نے سناٹے سے گھبرا کر بالکونی سے سڑک پر دیکھاتو اسے جگہ جگہ لوگوں کی ٹولیاں دکھائی دیں۔ سب کے ماتھوں پر پریشانی رقم تھی۔ چہروں سے دکھ جھلکتا تھا اور وہ مختلف مقامات پر ٹولیوں کی صورت میں اس طرح کھڑے تھے جیسے کسی جھگڑے کے بعد لوگ محلے میں جمع ہوجاتے ہیں یا جس گھر میں موت واقع ہوجائے اس کے باہر لوگ ہاتھ باندھے سروں کوجھکائے افسردگی کے عالم میں جمع ہوجاتے ہیں۔ اوریہ جو ہرگھر کے باہر اور پورے محلے میں لوگ جگہ جگہ ٹولیوں میں جمع تھے تو کیا محلے کے ہر گھر میں موت واقع ہوگئی تھی؟کیا یہ ڈھاکہ پر قبضہ کوئی بہت بڑاواقعہ ہے؟وہ بچہ باربار حیرت سے لوگوں کو دیکھتاتھا اورسوچتاتھا۔
جب نئی حاکمیت کا اعلان ہوتا تھا
لوگ پہلے بھی تو اسی طرح شہر میں ٹولیوں کی صورت میں جمع ہوتے ہوں گے۔ سینکڑوں ہزاروں سال قبل جب حملہ آور اس شہر پر قبضہ کرتے ہوں گے اورخلق خدا پر نئی حاکمیت قائم کرتے ہوں گے۔ تو اس وقت بھی تولوگ اسی طرح گلیوں میں جمع ہوتے ہوں گے۔ سرکوجھکائے ہوئے ماتھوں پر پریشانی اور چہروں پر دکھ رقم کیے۔ کیا انہیں قبضے کے بعد یوں جمع ہونے کی اجازت ہوتی تھی یا انہیں گھروں سے باہر نکلنے سے روک دیا جاتا تھا؟
( جاری )