دولت گیٹ اور بھوکے ننگے مریدوں کے چڑھاوے
یہ منظر تو آج کے دور میں بھی دہرایا جاتا ہے۔ حملہ آوروں کی جانب سے لوٹ مارکانہیں ، گدی نشینوں کی جانب سے سونا وصول کرنے کا ۔ ملتان کی ایک بڑی گدی کے مالک ہر سال عرس کے موقع پر مزار کے قریب واقع اپنے گھرمیں یہ دولت سمیٹتے ہیں اوریہ گھر جس جگہ تعمیر ہے وہ دولت گیٹ کا علاقہ ہے ۔ اوروہاں پیر دولت شاہ کا مزار بھی ہے۔ تو کیاپیر دولت شاہ کا نام اسی دولت کی وجہ سے رکھا گیا جو مخدوم صاحب صدیوں سمیٹتے ہیں یا اس نام کی کوئی اور وجوہات تھیں یہ تو تاریخ کے طالب علم ہی بہتر جانتے ہوں گے۔ سردی ہو یا گرمی ، ملک کے دوردراز علاقوں سے ننگے پاﺅں ،ننگے سر اور بعض اوقات ننگے بدن ملتان آنے والے مرید عرس میں شرکت کے موقع پر جب مخدوم صاحب کی زیارت کے لیے جاتے ہیں تو صرف نقدی ہی ان کی نذر نہیں کرتے زیورات بھی تو ان کی جھولی میں ڈالتے ہیں۔اور یہ زیورات آج اکیسویں صدی میں بھی ہرسال کئی کلو کے حساب سے جمع ہوتے ہیں۔
روشن خیالی کے دعوے اور فرسودہ خیالات
کون کہتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں؟ کون کہتا ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ،مہذب اورر وشن خیال ہیں؟ ہم تو آج بھی سینکڑوں ہزاروں سال پہلے کے اس عہد میں سانس لے رہے ہیں جب سورج دیوتا کے مندر پر ایسے ہی چڑھاوے دیئے جاتے تھے۔ اوراگر ہم آج ہزاروں سال بعد بھی اسی عہد میں زندہ ہیں اوراسی ماحول میں سانس لے رہے ہیں تو پھر یہ سوال ذہن میں کیوں نہ ابھرے کہ کاش ہم اسی عہدمیں پیدا ہوجاتے ۔سورج دیوتا کے دور میں کم ازکم ہمیں یہ ملال تو نہ ہوتا کہ ہم اتنے ترقیاتی یافتہ دور میں بھی اتنی فرسودہ اور بوسیدہ سوچ رکھتے ہیں۔
بے گھر لوگوں کو جنت میں گھر کی بشارت
اس دور میں تو شاید عوام کے استحصال کے لیے اتنے ادارے بھی موجودنہیں تھے۔ اب تو شہر میں کئی مدرسے ہیں ، ہرمکتبہ فکر کا اپنا مدرسہ ہے، کئی عبادت گاہیں ہیں، کئی اجتماعات ہوتے ہیں، ہر عبادت گاہ ،ہرمدرسے اور ہر اجتماع کے نام پر غریب اور مفلوک الحال عوام سے نذرانے وصول کیے جاتے ہیں۔عبادت گاہوں کے لیے چندہ مانگا جاتا ہے۔ اور اس کے عوض بے گھر لوگوں کو جنت میں گھر کی بشارت دی جاتی ہے۔ کل کے ملتان میں جب معاشرتی شعور اتنا زیادہ نہیں تھا اور جب لوگوں کو شہری زندگی کابھی پتہ نہیں تھاتو اس زمانے میں عبادت گاہیں مخیر حضرات تعمیرکراتے تھے۔ سالہا سال ان کی تعمیر کے لیے چندہ وصول نہیں کیا جاتاتھا ۔اوروہ عبادت گاہیں سڑکوں اور چوراہوں کے وسط میں بھی تعمیر نہیں کی جاتی تھیں۔ وہ مساجد ،وہ عید گاہیں ، وہ مندر اور وہ گرجے سب فن تعمیرکا شاہکارہیں۔ کیسا المیہ ہے کہ ملتان میں ہمارے عہد میں جو عبادت گاہیں تعمیرہوئیں ان میں کوئی ایک ایسی نہیں جسے فن تعمیر کے حوالے سے قدیم عبادت گاہوں کے برابر قراردیا جاسکے ۔ہم نے تو ماضی کی عبادت گاہوں اور مزارات کوبھی ذاتی نمودونمائش ،شان وشوکت اور دولت میں اضافے کے لیے استعمال کیا۔
اندرون شہر کی تاریک گلیاں اور سیلن زدہ مکان
آیئے ایک بارپھر ماضی میں چلتے ہیں۔ اندرون شہر کے کسی مکان میں چلتے ہیں۔کسی تاریک اور سیلن زدہ مکان میں۔ کسی تنگ سی گلی میں ۔ جس کے راستے بھی اتنے تنگ کہ سامنے سے کوئی دوسرا آئے تو دیوار کے ساتھ لگ کراسے گزرنے کا راستہ دیا جائے۔ وہ تنگ سی گلی ایک دوموڑ مڑنے کے بعد یک دم کشادہ ہوجاتی ہے۔ اورپھر ایک دروازہ آتا ہے ۔دروازے پر کپڑا لٹک رہا ہے ۔اس دروازے میں داخل ہوتے ہیں ۔لیجئے اندر تو وسیع احاطہ ہے اور اس احاطے کے چاروں طرف مکان اور احاطے میں رونق ،چارپائیاں بچھی ہیں اورچارپائیوں پر عورتیں بچے ،بڑی بوڑھیاں،کھانستے ہوئے بوڑھے جیسے سب ایک ہی خاندان کے لوگ ہوں۔ کوئی کسی کی پھوپھی ،کوئی تائی کوئی چاچا ،کوئی دادا ، سب الگ الگ خاندانوں سے لیکن پھربھی ایک ہی خاندان۔
( جاری )