زنجیر عدل اور میزان عدل
جہانگیر کامحل ہوتا تو فریادی کے لیے کوئی زنجیر عدل بھی موجودہوتی۔ لیکن وہ زنجیرعدل تو اب عدالت میں بھی موجودنہیں ہوتی۔وہاں میزان عدل ہوتی ہے۔ اوراس کا ایک پلڑا جھکا ہوا ہوتا ہے۔ کس جانب جھکا ہوتا ہے یہ پلڑا ہم اس بحث میں نہیں پڑتے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اس بڑی عدالت کے بالکل سامنے ایک دیوارہے جس کی دوسری جانب ٹینک ہیں ، توپیں اور فوجی گاڑیاں ہیں، بیرکیں ہیں، فوج کے دفاتر ہیں۔معلوم نہیں صوبے کی سب سے بڑی عدالت فوجی چھاﺅنی کے ساتھ کیوں بنائی گئی تھی ؟
بھٹو کے خلاف تحریک اندرون شہر کی گلیاں
تو جب اندرون شہرکی گلیوں میں شمس کے شہر کی گلیوں میں ان تاتاریوں پر پتھرو ں اور گرم پانی کی بارش ہوئی تو ان میں سے کچھ مارے گئے۔ باقی پسپا ہوگئے۔اور یہ عمل پانچ ہزار سال کے دوران اس شہر میں بارہا دہرایاگیا۔اورآخری بار یہ منظر 1977ء میں دیکھنے میں آیا۔جب اسلامی نظام کے نام پر بھٹو کی حکومت کے خلاف تحریک چلی۔ اس تحریک کا مرکز اندرون شہر تھا۔اورجب پولیس بلوائیوں کے تعاقب میں اندرون شہر داخل ہوئی تو ان گلیوں میں ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا تھا جو ماضی میں حملہ آ وروں کے ساتھ ہوتارہا۔
نیا حاکم ، نیا مذہب اور قطار میں کھڑے ملتانی
لیکن ابھی ہمیں ماضی میں رہناہے۔اوراس منظرکاحصہ بننا ہے جب ہر حملہ آور اپنا مذہب ساتھ لے کر آتاتھا۔شہر کے باہر ایک میدان میں مرد بچے اور بوڑھے سر کو جھکائے قطار میں کھڑے ہیں۔ سامنے سپاہ نے تلواریں سونت رکھی ہیں۔ نئے حاکم شہروالوں کامذہب تبدیل کرارہے ہیں۔جو بھاگ سکتے تھے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن وہ بھی تو چند ایک ہی تھے۔اور وہ بھاگے بھی کہاں تک ہوں گے۔ سو باقی لوگ سر کو جھکائے ہوئے احکامات سن رہے تھے۔ان کوبتایا جارہا تھاکہ تم جس مذہب میں بھی پیدا ہوئے آج ہماری حکومت آجانے کے بعد تمہیں اپنا مذہب ترک کرنا ہوگا۔جو انکارکرے گا اسے تہہ تیغ کردیا جائے گا۔اورصرف ملتان میں ہی نہیں پوری دنیا میں مذہب کی تبدیلی کا یہی ایک اصول رہا۔شہر اورملک جب بھی فتح ہوئے وہاں کے لوگوں کو فاتحین کامذہب اختیارکرناپڑا۔اور اس کے بعد کئی نسلوں تک وہی مذہب رائج رہا۔بے شمارجنگیں مذہب کے نام پر لڑی گئیں۔اورآج کے ترقی یافتہ دور میں بھی لڑی جارہی ہیں۔ مذہب ہی نہیں فرقوں کی بالادستی بھی انہی جنگوں اور فتوحات کے نتیجے میں قائم ہوئی ۔جہاں جو حاکم بنا اس نے وہی مذہب یا فرقہ رائج کردیا۔ سو شہر کے باہر میدان میں کھڑے ملتانی اپنا مذہب تبدیل کرتے ہیں اور پھرانہیں ان کے گھروں کوجانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
کیا عورت کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے ؟
ہرحملہ آور نے مذہب کی تبدیلی کے لیے صرف مردوں کوہی مجبور کیا ۔شاید اسی لیے کہ اس خطے میں ہی نہیں دنیا بھرمیں مذہب صرف مرد کاہوتا ہے ۔ جس طرح عورت کا کوئی اپنا رشتہ اور کوئی اپنا گھر نہیں ہوتا اسی طرح عورت کامذہب بھی اپنا نہیں ہوتا۔وہ جس گھر میں جاتی ہے اسے وہی مذہب اختیارکرناپڑتاہے۔ مذہب پر مرد کی یہ اجارہ داری صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ سو اس میدان میں بھی مذہب کی تبدیلی کے لیے کسی عورت کو نہیں بلایاگیاتھا۔فاتحین عورت کو صرف اس وقت بلاتے تھے جب انہیں نسل تبدیل کرناہوتی تھی۔
( جاری )