ملتان کیسا تھا 1947 ء میں ؟
ہرسال جب بھی ہم پاکستان کاجشن آزادی مناتے ہیں ،ایک سوال ذہن میں ضرور ابھرتاہے کہ 1947ء میں جب پاکستان قائم ہوا اورجب یہ خطہ ایک آزادملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پرابھرا۔اس وقت ملتان کیساتھا۔یہاں کے لوگوں نے کیسے اس دن کومنایا۔وہ دن جب ہمیں غلامی سے نجات ملی ،وہ دن جب ہم نے پہلی بار آزادفضامیں سانس لیا،جب زنجیریں ٹوٹیں توہزاروں سال پرانی تہذیب وثقافت کاامین ملتان کیساتھا۔اورآزادی کااعلان سنتے ہوئے یہاں کے لوگوں نے کیامحسوس کیا؟
یہ شہر پہلی بار تو آزاد نہیں ہوا تھا
ملتان کے بارے یہ کھوجنا اس لئے بھی دلچسپی کاباعث ہے کہ 5ہزارسال کی معلوم تاریخ رکھنے والایہ شہرکوئی پہلی بار توآزادنہیں ہواتھا۔یہاں کئی حکمران آئے اوریہاں کے لوگوں پرحکمرانی کرکے چلے گئے۔بادشاہ ،راجے ،مہاراجے،نواب سب اس شہرپرحکمران رہے۔ہرتبدیلی خونریزی پرختم ہوئی ۔یہاں کے لوگوں نے بارہاغلامی کاطوق گلے میں ڈالااوربار ہااس سے نجات بھی حاصل کی لیکن آخری بار جب انہوں نے انگریزکی غلامی سے نجات حاصل کی تو ان کے جذبات کیسے تھے،کیامحسوس کیا،انہوں نے اوراس آزادی کاجشن کس ڈھب سے منایا۔ لیکن یہ احوال سنانے سے پہلے ہمیں ایک نظراس جدوجہد پرڈالنی ہے جس کے نتیجے میں آزادی کاسورج ہمیں دیکھنانصیب ہوا۔
ملتان کی آبادی اور آل انڈیا مسلم لیگ ملتان شاخ کا قیام
1947ءمیں جب پاکستان کاقیام عمل میں آیا ملتان شہر کی آبادی جواب 18 لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے صرف 87394نفوس پرمشتمل تھی جبکہ ضلع ملتان کی آبادی جو اب 45 لاکھ سے زیادہ ہے ایک لاکھ 35ہزارتھی ۔ملتان شہرمیں مسلمانوں کی آبادی 56فیصداورہندﺅں سمیت باقی مذاہب کے لوگوں کی 44فیصدتھی۔ملتان کی میونسپل کمیٹی کی آدھی نشستیں مسلمانوں اورآدھی ہندﺅں کے پاس تھیں لیکن ہم بات کاآغاز 1936ءکے نومبرکے مہینے سے کرتے تھے ۔یہ وہ مہینہ ہے جب ملتان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی شاخ قائم ہوئی۔آغازعزیزاحمد مرزااس کے پہلے ضلعی صدر اورسعیداحمدشاہ بخاری ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔دیگرعہدیداروں میں محمداکرم خان پراپیگنڈہ سیکرٹری اورڈاکٹرعبدالستارحامد (جوبعدمیں ملتان کے معروف نیوز ایجنٹ رہے )شامل تھے ۔
زین العابدین گیلانی کی مسلم لیگ میں شمولیت
1939ءتک مسلم لیگ ملتان کی سرگرمیاں سعیداحمد شاہ بخاری کے گھر تک محدودرہیں جوگھنٹہ گھرکے عقب میں واقع تھا۔1939ءمیں سید زین العابدین شاہ گیلانی مسلم لیگ میں شامل ہوئے تواس جماعت میں ایک تحرک پیداہوا۔زین العابدین شاہ گیلانی کو ملتان کا بے تاج بادشاہ سمجھا جاتاتھا۔وہ مسلمانوں کے ایک مقبول لیڈرکی حیثیت سے جانے جاتے تھے اوران کی جماعت انجمن فدایان اسلام مسلمانوں کے حقوق کےلئے سرگرم تھی۔مسلم لیگ میں شمولیت کے بعدزین العابدین شاہ گیلانی نے انجمن فدایان اسلام کو بھی مسلم لیگ میں ضم کردیا۔اسی برس علی حسین شاہ گیلانی ،ولایت حسین شاہ گیلانی ،رحمت حسین شاہ گیلانی ،عبدالکریم قاصف اورمختارحسین شاہ گردیزی بھی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔یہ سب لوگ بعدازاں پارٹی کے مختلف عہدوں پرفائزرہے اورتحریک پاکستان کے اس ہراول دستے میں ان کاشمارہواجہاں ملتان میں بیداری کی لہرپیداہوئی ۔
تیئس مارچ کے اجلاس میں ملتانیوں کی شرکت
23مارچ 1940ءکے تاریخی اجلاس سے قبل ملتان میں مسلم لیگ کے انتخابات میں سیدزین العابدین شاہ گیلانی کوپارٹی کاضلعی صدر منتخب کرلیاگیا۔ملتان سے کارکنوں اوررہنماﺅں کو جووفدلاہورکے تاریخی اجلاس میں شرکت کےلئے گیا اس کی قیادت زین العابدین شاہ گیلانی نے ہی کی تھی ۔اس دوران ملتان میں مسلم لیگ سٹی کاقیام عمل میں رہا۔جلیل شاہ گردیزی اورحافظ محمداعظم خان خاکوانی اس کے عہدیدارمنتخب ہوئے ۔1942ءمیں غلام قاسم خان خاکوانی (جوبعدمیں ملتان کے میئربھی بنے)مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ملتان کے ابتدائی عہدیداروں میں علی نوا زگردیزی ،چوہدری ذوالفقار ،غلام قاسم شاہ ،علی حسین شاہ گردیزی اورصاحبزادہ فاروق علی خان (جوبھٹودورمیں قومی اسمبلی کے سپیکرمنتخب ہوئے )شامل تھے۔دوسری جانب خواتین کومتحرک کرنے کے لئے مسلم لیگ ملتان کے پہلے جنرل سیکرٹری سعید احمد شاہ بخاری کی ہمشیرہ زبیدہ جعفری میدان میں آگئیں۔
ان تمام رہنماﺅں کی کوششوں کے نتیجے میں مسلم لیگ ملتان میں ایک مقبول جماعت کی حیثیت اختیارکرگئی ۔
سٹی مسلم لیگ کا دفتر اور جلسوں کی رونق
سٹی مسلم لیگ کادفترپُل شوالہ میں قائم ہوگیااورپاک گیٹ ،کڑی افغاناں، مسجد ولی محمد ،سوتری وٹ ،قدیرآباد،بوہڑگیٹ،لوہاری گیٹ کے علاقے مسلم لیگ کی سرگرمیوں کامرکزبن گئے ۔وہ مسلم لیگ جوپہلے صرف ایک مکان تک محدودتھی اب اس کے جلسے بھی منعقدہونے لگے۔عام خاص باغ ،باغ لانگے خان اورعید گاہ گراﺅنڈ مسلم لیگ کے جلسوں کاگڑھ بن گئے۔ان جلسوں میں مختلف شہروں سے بھی رہنماخطاب کےلئے آتے تھے۔ان رہنماﺅں میں ممتازاحمد خان دولتانہ ،سردارشوکت حیات خان ،عبدالستارخان نیازی ،عاشق حسین بٹالوی اورپروفیسرعنایت اللہ کے نام خاص طورپرقابل ذکرہیں ۔
شہر میںبلوے اور جلاؤ گھیراؤ
ایم ایس ایف نے ایمرسن کالج کو(جوچوک کچہری میں اس جگہ قائم تھاجہاں اب گرلزکالج موجودہے)سرگرمیوں کامرکزبنایا ۔جیسے جیسے تحریک زورپکڑتی گئی ملتان میں جلسے جلوس شدت اختیارکرگئے ۔ہندوﺅں اورمسلمانوں کے درمیان جھڑپیں ہونے لگیں ،کبھی بوہڑگیٹ اورکبھی چوک بازارمیں بلوہ ہوجاتا۔ایسی ہی ایک لڑائی کے دوران حسن پروانہ قبرستان کے عقب میں واقع سبزی منڈی کو نذرآتش کردیاگیا۔آگ کے شعلے شہرمیں دوردورتک دکھائی دیتے تھے۔25جنوری 1947ءکوپنجاب یونینسٹ حکومت کے خلاف عیدگاہ گراﺅنڈ میں ایک بڑاجلسہ منعقدہواجس میں مسلم لیگ کے تمام عہدیدارشریک ہوئے۔جلسے کے بعد دفعہ144کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس نکالاگیا۔جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کی ساری قیادت گرفتارہوگئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک میں شدت آتی گئی ۔خواتین ،نوجوان اوربچے ،بوڑھے سب اس تحریک میں شامل ہوگئے اورپھر وہ تاریخ ساز لمحہ آیاجب پاکستان حقیقت بن گیا۔
جب ریڈیو سے آزادی کا اعلان ہوا
14اگست کی شب جب ریڈیوسے پاکستان کے قیام کااعلان نشرہواتواس رات ملتان جاگ رہاتھا۔مختلف بازاروں اورمحلوں میں لوگ یہ اعلان سننے کےلئے جمع تھے ۔ کان پڑی آوازسنائی نہ دیتی تھی ۔70 برس پہلے کے ملتان میں رات اس طرح نہ جاگتی تھی جیسے اب جاگتی ہے،لوگ آٹھ نوبجے گھروں کوچلے جاتے تھے۔بجلی ہرگھرمیں موجودنہیں تھی ،گلی محلے بہت ویران ہوجاتے تھے لیکن اس رات یہ ویرانی نہیں تھی۔لوگ گلیوں میں گھوم رہے تھے۔12بجے کاانتظارکررہے تھے ۔اس تمام ترچہل پہل کے باوجود ایک خاموشی تھی ۔انتظار کے لمحات تھے کہ جوگزرہی نہیں رہے تھے اورانتظارکرنے والوں میں عورتیں بھی شامل تھیں اوربچے بھی ،عورتیں اپنے گھروں میں ریڈیوکے گردبیٹھی تھی اورپھرجیسے ہی آزادی کالمحہ قریب آیالوگ مختلف مقامات پرجمع ہوناشروع ہوگئے،بوہڑگیٹ ،پُل شوالہ ،سوتری وٹ،پاک گیٹ ،لوہاری گیٹ ،کڑی افغاناں ،گھنٹہ گھر،چوک بازار میں ریڈیوکے گرد ہجوم بڑھنے لگااورپھروہ لمحہ آگیاجب غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں ۔
سناٹا ختم ہوا ، زندگی جھومر ڈالنے لگی
ریڈیوپاکستان کانام سنائی دیا۔ایک خواب شرمندہ تعبیرہوگیا۔سناٹاختم ہوگیاوہ گلی کوچے جہاں چندلمحے پہلے خاموشی تھی ،پاکستان زندہ باد،قائداعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھے۔آنکھوں سے آنسوچھلک پڑے۔خوشی کے آنسو،ان کے دکھوں سے نجات کے آنسوجنہیں ملتان کے باسی صدیوں سے جھیل رہے تھے ۔لوگ ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔دھرتی کے بیٹے اب دھرتی کے مالک بن گئے تھے۔وہ جوسراٹھاکر جینے کے قابل ہوگئے تھے۔اس رات آسمان پرچاند موجودنہیںتھاوہ اماوس کی ایک رات تھی مگرملتان ہی نہیں برصغیرکے تمام مسلمانوں کےلئے وہ رات اپنے دامن میں بہت سی روشنیاں سمیٹ کرلائی تھی ۔دورکسی محلے میں ایک ڈھول بجا اورپھراماوس کی اس روشن رات میں زندگی جھومرڈالنے لگی۔
( جاری )