اختصارئےرضی الدین رضیلکھاری
نام کی خواہش اور احساس کمتری کے مارے ایڈیٹر ۔۔ رضی الدین رضی

ہمیں صحافت سے منسلک ہوئے تین عشروں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکاہے ۔جب کہ اخبارات میں ہمارا نام 1978ء سے شائع ہو رہا ہے کہ جب ہم آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے ۔ اس سارے عرصہ کے دوران اپنا نام یا تصویر اخبار میں دیکھنے کی خواہش ہم نے جی بھر کے پوری کی۔ اپنا ہی نہیں اپنے دوستوں اوراستادوں کے نام بھی ہم نے جی بھر کے شائع کئے ۔ جہاں اختیار تھا وہاں مخالف کا نام بھی نظر انداز نہ ہونے دیا کہ ہمیںہمارے استادوں نے بتایا تھا کہ کسی کا نام حذف کرنے سے کسی کے نام کو مٹایا نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر اخبارات پر زوال آیا تو ہم نےسوشل میڈیا پر اپنا ہی آن لائن اخبار شروع کر لیا جس کی ”سرکولیشن“ ملتان کے تمام اخبارات کی مجموعی اشاعت سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود جب احساس کمتری کا مارا ہوا کوئی ایڈیٹر کسی خبر میں سے ہمارا نام کاٹتا ہے تو ہم اس سے لطف لیتے ہیں ۔شہر میں کسی ادیب یا شاعر کے انتقال کی مصدقہ خبر اس کے حالات زندگی اور ادبی خدمات کی تفصیل بھی تمام اخبارات کوہمیشہ ہم سے ہی ملتی ہے لیکن اسے ایڈیٹر صاحبان اپنی اپنی ” پالیسی “ کے مطابق مناسب ردوبدل کے بعد شائع کرتے ہیں اور اگر تعزیتی خبر میں ہیڈ آفس کو شکایتی فون کرنے والےکسی شاعر یا متشاعر کا نام شامل نہ ہو تو اس کا نام شامل کر کے خبر کو ”قابل اشاعت “ بنایا جاتا ہے کہ اگر اس نے ” اوپر “ فون کر دیا تو جواب طلبی ہو جائے گی ۔ آج ہی ایک صاحب نے دو قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی جانب ہمیں متوجہ کیا اور چسکہ لینے کے لئے دریافت سوال کیا کہ ” سر جی جنگ والوں کا مسئلہ تو سمجھ آتا ہے کہ اس کے ایڈیٹر ظفر آہیر صاحب کے ساتھ پریس کلب کےمعاملات میں آپ کا اختلاف ہے ۔ لیکن دنیا اخبار میں تو آپ کے دوست امجد بخاری ایڈیٹر ہیں ۔ وہ ہمیشہ آپ کا نام کیوں کاٹتے ہیں ؟ ہم نے چسکہ لینے والے کوبتایا کہ امجد بخاری تو ہم سے پوچھ کر ہمارا نام خبر سے کاٹتے ہیں کہ کہیں ہمارے نام کی بےحرمتی نہ ہو جائے ۔