قبرستانوں کے شہر میں زندہ درگور ہونے والے
شہر کی قدامت اس کے قدیم قبرستانوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے ۔ کسی بھی قبرستان کو دیکھ کر دل میں ایک سوال ضرورابھرتا ہے کہ گورستانوں کے شہر ملتان میں ایک قبرستان زندہ درگور ہونے والوں کا بھی تو ہوناچاہیے۔اس شہر میں بہت سے لوگ ہیں جنہیں ہم نے زندہ درگور کردیا مگر وہ تاریخ میں زندہ رہے۔ ذراسوچیں تو سہی کہ تاریخ انصاف پر کیسے مجبور ہوتی ہے۔ تاریخ کسی کو اپنے صفحات میں اگر جگہ نہ بھی دینا چاہے تو عوام اسے اپنے دل میں جگہ دے دیتے ہیں۔ اور جسے عوام اپنے دل میں جگہ دے دیں اسے تاریخ بھی اپنے صفحات میں رقم کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
شاہ حسن پروانہ کب ملتان آئے تھے ؟
اولیاءکے اس شہر میں ایک بزرگ شاہ حسن پروانہ ہوتے تھے۔ شہر سے باہر ایک ویرانے میں انہوں نے اپنا مسکن بنایا۔تھا وہ ملتان کب آئے اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ ہاں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ وہ چھٹی صدی ہجری میں ملتان میں ہی مقیم تھے۔شاہ حسن پروانہ کو ان کے مریدوں نے پروانہ کا لقب دیا۔اور وہ جس مسجد میں رہتے تھے انہیں اسی مسجد کے پاس آسودہ خاک کیاگیا۔کسی دربار والے سے ان کاکوئی رابطہ ہوتا تو ان کابھی کوئی دربارہوتا۔ان کی بھی کوئی گدی ہوتی۔کوئی گدی نشین ہوتا۔لیکن شاہ حسن پروانہ تو ایک درویش تھے ۔ وہ خلق خدا سے محبت کرتے تھے۔
حسن پروانہ کا مسکن قبرستان میں کیسے تبدیل ہوئے
وفات کے بعد جب انہیں مسجد کے قریب ہی سپردخاک کیاگیا تو روایت ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے مریدوں نے بھی ان کے پہلو میں ہی دفن ہونے کی وصیت شروع کردی۔اور اتنی بڑی تعداد میں خلق خدا ان کے پہلو میں آئی کہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ وہ سارا علاقہ وسیع و عریض قبرستان میں تبدیل ہوگیا۔قبرستان حسن پروانہ کے نام سے جانا جانے والے یہ قبرستان گرد ،گرما و گداﺅں کے شہر کے قدیم گورستانوں میں سے ایک ہے۔شہر پھیلا تو چھاﺅنی سے بوہڑ گیٹ جانے والوں نے اس قبرستان کے درمیان میں سے راستہ بنالیا۔یہ راستہ رفتہ رفتہ سڑک میں تبدیل ہوگیا۔
گورستان میں چودھویں کے چاند کا نظارہ
دریا کنارے ساحل سمندر پر یا ریگستان میں چاندنی رات کا نظارہ ایک مسحور کن تجربہ ہوتا ہے۔لیکن گورستان میں چودھویں کے چاندکودیکھنا اور اس کے ساتھ مکالمہ کرنا اس سے بھی زیادہ منفرد تجربہ ہے۔یہ تجربہ 80ءکے عشرے میں ہم نے بارہا کیا تھا۔اور اس زمانے میں کیاتھا جب ہم نے جوانی کی دہلیز پر ابھی قدم ہی رکھاتھا۔جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی گورستان میں بیٹھ کر چودھویں کے چاند سے مکالمہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاند بھی ہمارے دل پر نقش ہوا اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا گورستان بھی ہمارے دل میں ہی بن گیا۔
قبرستان تو دفتر کے راستے میں تھا
1983ءکی بات ہے جب روزنامہ سنگ میل سے ہم نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیاتھا۔سنگ میل کا دفتر بوہڑ گیٹ کے باہر پرانی غلہ منڈی میں واقع تھا۔اور ہم روزانہ سائیکل پر جب دفتر جاتے تو ہمیں قبرستان کے درمیان اسی راستے سے گزرنا ہوتا تھا جو کسی نے کبھی بوہڑ گیٹ جانے کے لیے بنایاتھا۔رات کو دس یا گیارہ بجے کے بعد جب ہم دفتر سے واپس آتے تو ظاہر ہے وہی قبرستان ہمارے راستے میں پڑتاتھا۔آج بھی اگر اس سڑک پر رات کی تاریکی میں گزریں تو وہاں کوئی سٹریٹ لائٹ موجودنہیں۔لیکن اب تو ٹریفک رات گئے تک اس سڑک پر جاری رہتی ہے۔اس لیے تاریکی کا اتنا احساس نہیں ہوتا جتنا 1983ءمیں ہوتا تھا۔گرمیوں میں تو چلو پھربھی اکا دکا موٹر سائیکل، سائیکل یا کوئی اور راہگیر نظرآہی جاتاتھا۔لیکن سردیوں میں تو سناٹا ہوتا تھا۔دور دور تک کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیتاتھا۔شدید سردی اور بسا اوقات دھند یا بارش ۔ ایسے میں قبرستان ہمارا تعاقب کرتاتھا۔ہم قبرستان کے شرو ع ہونے سے پہلے سائیکل کی رفتار تیز کردیتے تھے تاکہ سردی ہی نہیں خوف کا احساس بھی کم ہوجائے( جاری )