گزشتہ چند روز سے ملک بھرکے میڈیا ہاؤسز میں ایک کہرام کی کیفیت ہے ۔ وہ صحافی ،اور کارکن جو طویل عرصہ سے ان اداروں کے ساتھ وابستہ تھے وہ بے روزگار کر دئے گئے ہیں ۔ وہ جنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ قلم کی مزدوری کے علاوہ بھی کوئی کام کریں گے اب کچھ اور سوچنے پر مجبور ہو گئےہیں لیکن افسوس کہ انہیں تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا ۔ سو وہ روتے ہوئے اوراپنے آنسو پونچھتے ہوئے ان اداروں سے رخصت ہو گئے جنہیں وہ اپنا گھر سمجھتے تھے اور اس لئے گھر سمجھتے تھے کہ وہ گھر سے زیادہ وقت اپنے اداروں کو ہی تو دیتے تھے کہ صحافت نوکری نہیں ایک طرز زندگی کا نام ہے اور اس طرز زندگی میں اخبار یا چینل کے دفتر کو ہی بنیادی حیثیت ہوتی ہے۔ اب کیفت یہ ہے کہ جنہیں کوئی اور کام نہیں آتا وہ کوئی اور کام ڈھونڈ رہے ہیں ۔بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں ۔ سوال ہر ایک کی زبان پر ایک ہی ہے کہ پاکستانی میڈیا جو بہت مضبوط اور طاقت ور سمجھا جاتا تھا اور جس کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ یہ تو حکومتوں کو سمیٹ دیتا ہے اور آمروں سے ٹکرا جاتا ہے اس طرح جھاگ کی طرح کیوں بیٹھ گیا ؟ اپنے ہی بوجھ تلے کیوں دب گیا ؟ سوال تو یہی اہم کہ میڈیا کا کل طاقت ور ہونا جھوٹ تھا یا یہ لوگ آج کم زور ہونے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ؟
پاکستانی میڈیا تاریخ کے بدترین دورسے گزررہاہے،سینکڑوں صحافیوں کو بے روز گار کردیاگیا اور بڑے بڑے میڈیاہاﺅسز ڈاﺅن سائزنگ کی زد میں ہیں۔وہ اخبار جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھاکہ وہ بحران کی زدمیں آئیں گے یابند کردیئے جائیں گے اپنی بقاءکی جنگ لڑتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اس کہانی کاآغاز سپریم کورٹ سے ہواتھا۔ جب ویج ایوارڈ پر عملدرآمد اور کارکنوں کے واجبات کے کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے تنخواہیں ادانہ کرنے والے میڈیاہاﺅسز کے مالکان کو وارننگ دی تھی کہ وہ کارکنوں کی تنخواہیں اداکریں یاجیل جانے کےلئے تیارہوجائیں ۔اس دوران بعض چینلز اوراخبارات کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ کارکنوں کی تنخواہیں جلد ادا کردی جائیں گی۔صحافتی تنظیموں کے عہدیداروں نے عدالت میں بیان دیاکہ مالکان کو 51ارب روپے کے اشتہارات جاری کئے گئے لیکن ان کی جانب سے تنخواہیں نہیں دی جارہیں۔نوائے وقت کی مالکہ رمیز ہ نظامی نے عدالت کو بتایاتھا کہ ہم نے ستمبرتک کی تنخواہیں اداکردی ہیں اورباقی بھی جلد اداکردی جائیں گی۔چیف جسٹس آف پاکستان نے انہیں 15دسمبرتک باقی تنخواہیں اداکرنے کاحکم دیاتھا۔ان سماعتوں کے دوران نوائے وقت کے مستقبل کے حوالے سے قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔اسی دوران وقت نیوزبند کئے جانے کی خبربھی آگئی ۔یہ وہ پہلی خبرتھی جس کے بعد مالکان کی جانب سے کریک ڈاﺅن شروع ہوگیااورکئی ٹی وی چینلز اوراخبارات نے اپنے بعض دفاتربند کردیئے ،عملہ کم کردیاگیایاپھر کم تنخواہوں کے کنٹریکٹ پرسٹاف سے دستخظ لے لئے گئے ۔چالیس سے پچاس ہزارروپے ماہانہ تنخواہ والے ملازمین سے بھی کہاگیاکہ وہ کم تنخواہ پرآمادگی ظاہرکردیں بصورت دیگر اپنے گھروں کی راہ لیں۔اس دوران یہ خبریں بھی گردش میں آئیں کہ ڈاؤن سائزنگ کے عمل میں تیزی میڈیامالکان کی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد آئی ہے ۔ اس ملاقات میں مالکان کو یقین ہو گیا تھا کہ حکومت انہیں غیر ضروری سرکاری اشتہارات بھی نہیں دے گی اور سابقہ دور حکومت کے واجبات بھی ادا نہیں کئے جائیں گے ۔
ڈاؤن سائزنگ کے اگلے مرحلے میں بھاری تنخواہیں لینے والے بعض اینکروں کی تنخواہیں کم کردی گئیں ۔اس دوران مختلف اداروں میں کارکنوں کے بقایاجات کی فہرستیں تیارہوتی رہیں ۔وزراء سے ایک دومرتبہ صحافیوں کی جانب سے سوال بھی کیاگیاکہ انہیں بے روزگار کیا جا رہا ہے کیا آپ اس کی روک تھام کے لئے کوئی کردار ادا کریں گے توان کاموقف یہ تھا کہ ہم اس معاملے سے لاتعلق ہیں اورحکومت مالکوں پرکسی قسم کادباﺅنہیں ڈال سکتی۔پھرحکومت کی جانب سے واجبات کی ادائیگی پر آمادگی کی خبر بھی آئی لیکن اگلے ہی روز اس کی تردید بھی کردی گئی ۔
سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس نے مختلف اسٹیشنزپر سٹاف کو فارغ کردیا اورچند سب ایڈیٹر زاوررپورٹرز کے ذریعے کام شروع کیا گیا ۔جہاں سےباقاعدہ اخبار شائع ہوتا تھا وہاں پرنٹنگ سٹیشن کے طور پر محدود عملے کے ساتھ کام شروع کر دیا گیا ۔ سب سے بڑا کریک ڈاﺅن سب سے بڑے اخبارمیں ہوا۔15دسمبر کو یہ خبرسامنے آئی کی جنگ گروپ نے اپنے چھ اخباربند کردیئے ہیں اوربعض اخبارات کی بندش زیرغورہے۔جن اخبارات کو بندکیاگیاان میں جنگ پشاور،جنگ فیصل آباد ،روزنامہ عوام ، دی ڈیلی نیوز ،روزنامہ انقلاب اورروزنامہ وقت شامل ہیں ۔انگریزی ہفت روزہ میگ کی بندش کی خبریں بھی گردش میں ہیں ۔اسی دوران ڈان کی جانب سے انگریزی ماہ نامہ ہیرالڈبند کرنے کابھی فیصلہ سامنے آچکاتھا۔ڈان نے بھی ملک بھر سے پانچ سوسے زائد افراد کو ملازمت سے فارغ کیااورکم وبیش اس سے دوگناافراد روزنامہ جنگ سے فارغ کردیئے گئے ۔روزنامہ دنیا ،92نیوز،جہان پاکستان سے بھی اسی قسم کی خبریں آرہی ہیں ۔17دسمبرکو پی ایف یو جے کی کال پرملک بھر میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اورمالکان کی جانب سے کارکنوں کے معاشی قتل عام پراحتجاج کیاگیا۔اس سارے عمل کے دوران حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ اخبارات جن کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتاتھاکہ وہ کبھی بند ہوں گے یااس صورتحال سے دوچارہوں گے آخر مختلف سٹیشن بند کرنے پرکیوں مجبورہوئے ۔کیا وجہ ہے کہ مالکان کواپنے ہی اخبار بوجھ لگنے لگے ۔وہ ادارے جن کے ذریعے انہوں نے سب کچھ حاصل کیا ۔ جن کی بدولت دولت ،عزت ،شہرت ،طاقت سبھی کچھ ان کے حصے میں آیاوہ ادارے آخر ان کے لئے بوجھ کیوں بن گئے ؟کیا یہ سب کسی کے اشارے پرہورہاہے یایہ حکومت کو بدنام کرنے کی کوئی سازش ہے ؟کیا وجہ ہے کہ ستربرس میں پہلی بار تما م میڈیامالکان اس نتیجے پرپہنچےہیں کہ انہیں یہ ادارے بند کردینے چاہیئں ۔کیا صرف سرکاری اشتہارات کی بندش ہی اس کی بنیادی وجہ ہے یاکوئی اورعوامل بھی کارفرماہیں ؟کہیں ایسا تونہیں کہ میڈیا کو لگام دینے والے پوری قوت سے وہ دبی ہوئی آوازیں بھی خاموش کراناچاہتے ہیں جوکبھی کبھار کہیںسے سنائی دیتی تھیں ۔گزشتہ کئی روز سے مختلف اخبارات اور چینلز کے دفاترسے گھروں کو جانے والے کارکنوں کی سسکیاں سنائی دے رہی ہیں ۔ لیکن افسوس کہ یہ آوازیں ان تک نہیں پہنچ رہیں جن تک پہنچنی چاہیں ۔برطرفیوں کے اس عمل کو روکنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ابھی گزشتہ ہفتے ہی تو چیف جسٹس آف پاکستان نے کارکنوں کوبرطرف نہ کرنے کاحکم دیا تھالیکن اس کے باوجود طاقتورمالکان اگرمن مانی کررہے ہیں تواس کامطلب یہ ہوا کہ انہیں یقین ہے کہ کوئی ان کابال بھی بیگانہیں کرسکتا۔اب مالکان کو لگام دینے کےلئے ان کے اثاثوں کی چھان بین ضروری ہوگئی ہے ۔ان سے دریافت کیاجائے کہ انہوں نے یہ سلطنتیں کیسے بنائیں؟ ۔وہ کیسے میڈیاانڈسٹری سے دیگرصنعتوں کی طرف چلے گئے؟ انہوں نے کس کس سے کتنی رقوم حاصل کیں ۔ ہمیں امید رکھنا چاہیئے کہ چیف جسٹس ان سوالات کے جواب ضرور حاصل کریں گے کہ میڈیا مالکان کو اسی طرح صحافیوں کے معاشی قتل عام سے روکا جا سکتا ہے ۔اگر یہ قتل عام کسی اور کے اشارے پر نہیںہو رہا ۔
فیس بک کمینٹ