کبھی کبھی یوں ہی کچھ لکھ لینا چاہیئے ۔ بلا وجہ اور کسی مقصد کے بغیر اور دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے۔ لیکن سوال پھر یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا دل کی بھڑاس کبھی نکل بھی سکتی ہے؟ اور ہم جب دل کی بھڑاس یا دل کا غبار نکال لیتے ہیں تو کیا واقعی غبار چھٹ جاتا ہے ؟ اور یہ جو غبار ہے اگر یہ چھٹ نہ سکے تو پھر یہ دلوں کو دھندلا دیتا ہے اور دلوں کا دھندلا جانا آنکھیں دھندلانے سے کہیں زیادہ اذیت ناک اور کرب ناک ہوتا ہے کہ آپ تو جانتے ہیں دل دریا سمندروں ڈونگے ہوتے ہیں اور دلوں کے بھید کوئی بھی نہیں جانتا۔ جی ہاں کوئی بھی تو نہیں جانتا۔ قارئین کرام ہمیں دراصل آج کچھ شکریئے ادا کرنے ہیں۔ ایک تو المیہ یہ ہوا کہ آج کے دن شکریئے کا لفظ صرف اور صرف جنرل راحیل شریف کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ ادھر کوئی شکریہ کہتا ہے ساتھ ہی لوگ راحیل شریف کو تصور میں لا کر مسکرانے لگتے ہیں۔ اور آج ہی نہیں گزشتہ چند برسوں سے راحیل شریف کی وساطت سے اس لفظ کو مسلسل بےتو قیر کیا جا رہا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ بےتوقیری تو یہاں بےتو قیر لوگوں کے سوا سبھی کی ہو رہی ہے۔ لیکن سابق سپہ سالار کے نام پر ماضی قریب میں جس طرح شکر گزاری ، آہ و زاری اور گریہ زاری کی بے توقیری ہوئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔خیر اس بحث کو یہیں چھوڑتے ہیں ۔ کہ سپہ سالار اگر سابق بھی ہو تو اس کا تذکرہ عموماً مقامات آہ و فغاں کی طرف لے جاتا ہے اور جس سپہ سالار کا نام شکریئے سے منسوب ہو چکا وہ تو اب علم اسلام کا سپاہی کہلاتا ہے اور اُس عالم اسلام اسلام کا سپاہی کہلاتا جس کا جنیوا اب تہران تو ہر گز نہیں ہے ۔ اور اگر تہران جنیوا نہیں ہے تو پھر جان لیجیئے کہ کرہ ارض کی تقدیر بھی ہرگز نہیں بدلے گی کہ ہم میں تو یہ تاب نہیں کہ شاعرِ مشرق کو جھٹلا سکیں۔ ہاں تو ہم آپ کو بتا رہے تھے کہ شکریہ ہمیں راحیل شریف کا نہیں آصف علی زرداری صاحب کا ادا کرنا ہے جو دو روز قبل حامد سعید کاظمی صاحب سے اظہار یک جہتی کے لئے ہمارے شہر میں تشریف لائے تھے ۔ اور جب آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور قبلہ حامد سعید کاظمی کی تصویر ہماری نظر سے گزری تو سچ پوچھیں ہم نہال ہو گئے ۔ تصویر کا کیپشن تو شاید یہی تھا کہ زرداری صاحب یوسف رضا اور کاظمی صاحب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں، لیکن جب ایک ہی جیسے صاحب کردار لوگ ایک ہی منظر اور ایک ہی صف میں موجود ہوں تو پھر تصویر کے کیپشن کی ضرورت نہیں رہتی ایسی تصویریں کسی زمانے میں‘‘بلا عنوان‘‘ شائع کی جاتی تھیں۔ اسی پریس کانفرنس سے شاید ایک روز پہلے کی بات ہے کہ جب ہم اپنے دفتر میں موجود تھے اور حامد میر جیو چینل پر آصف زرداری کا انٹرویو کر رہے تھے۔ ہم ٹی وی چینلز ویسے بھی کم ہی دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ اب وقت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ انٹرویو کے دوان زرداری کی آواز ہمیں دوسرے کمرے تک بھی آ رہی تھی لیکن ہم اس پر توجہ نہیں دے رہے تھے کہ ہماری توجہ زیادہ اہم امور پر مرکوز تھی۔ دفتر کے ساتھیوں نے آواز بھی دی کہ ہم ان کے ساتھ بیٹھ کر زرداری صاحب کا انٹرویو سن لیں لیکن جس شخص نے ہمارے خواب برباد کر دئے اب اس کے لئے وقت برباد کرنا کم از کم ہمارے لئے تو ممکن نہیں رہا ۔ آپ اسے ہمارا جذباتی پن اور کوتاہ نظری بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہمارے پاس ضائع کرنے کے لئے وقت اور دوست رہ ہی کتنے گئے ہیں ۔ اور اچھا ہوا ہم نے زرداری صاحب کا انٹرویو نہیں سنا کہ جنہوں نے دیکھا اور سنا وہ بعد ازاں ان کی رعونت کا ذکر کر رہے تھے۔ بلکہ رؤف کلاسرا کو تو زرداری صاحب کا انٹرویو دیکھ کر فراعینِ مصر اور پھر ان کے حوالے سے مرزا ابنِ حنیف بھی یاد آ گئے کہ جنہوں نے آثاریات پر گراں قدر کام کیا۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ہمیں راحیل شریف کا نہیں آصف زرداری کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک سراب سے نکال لیا۔ اور سرابوں سے نکلنے کا موسم یوں بھی بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ کہ سراب ہمیں دھوکہ دیتا ہے اور دھوکہ بھی ایک خاص وقت تک لطف دیتا ہے، جب تک ہپارے اعصاب مضبوط ہوتے ہیں ہم دھوکہ کھاتے ہیں۔ دھوکہ دینے والے اپنی مہارت میں سرشار ہوتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہم تو جان بوجھ کر ان کے ہاتھوں دھوکہ کھا رہے ہیں۔ سو قارئین محترم اس سے پہلے کہ بات کوئی اور رخ اختیار کرے ہم اس تحریر کو سمیٹتے ہیں ۔ آپ کے ساتھ جانے کیا بیتی ہو گی لیکن ہم نے تو دل کا غبار نکال لیا۔
فیس بک کمینٹ