ہمیں کسی اور نے نہیں خود شاہ حسین نے لاہور بلایا تھا ، وہی شاہ حسین جو خود کو فقیر سائیں دا کہتا تھا اور جو سوال کرتا تھا مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال ، اور وہی شاہ حسین جس کے چراغ شالا مار باغ کے پاس روشن ہوئے تو پورا لاہور منور ہو گیا اور ان چراغوں کی روشنی پورے پنجاب بلکہ پورے برصغیر میں پھیلی ۔ چراغوں کا میلہ شاہ حسین کے حوالے سے لاہور کی پہچان بنا اورلاہور کا سب سے بڑا بلکہ ایک زمانے میں تو پنجاب کا بھی سب سے بڑا میلہ قرار پایا ۔ اسی شاہ حسین نے بادشاہوں کے ظلم و استبداد کا شکار ہونے والوں کو اپنی کافیوں کے ذریعے جینے کا حوصلہ دیا اور ان کے دکھوں کو زبان عطا کی ۔ یہ میلے ، یہ دھمال، یہ فقیر کی دھونی، صرف لاہور نہیں اس پورے خطے کی ثقافت کے ساتھ جڑی ہوئی تھی ۔میلہ میل ملاقات کا بہانہ تھا اور پھر جب لوگوں کو میل ملاقات کے لئے میلوں کی ضرورت نہ رہی یا دوسرے لفظوں میں ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاقات کی بھی ضرورت نہ رہی تو ان ثقافتوں اور ان محبتوں نے دم توڑنا شروع کر دیا۔اس مرتبہ جشنِ بہاراں ہم نے یوں دبک کر منایا کہ جیسے خزاں کا جشن منا رہے ہوں ۔ دھمال زندگی کی علامت ہے ، اگر دھمال رک جائے تو پھر موت دیوانہ وار رقص کرتی ہے سو موت نے کئی برسوں سے دیونہ وار رقص شروع کر رکھا ہے ۔ ڈھول کی تھاپ لاہور میں ہی نہیں ملتان میں بھی رک گئی۔ ایک میلہ یہاں حضرت شاہ شمس کے عرس کے موقع پر لگتا تھا ، وہ میلہ بھی مدت سے ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔ کچھ خواب سجانے والوں اور ان کی تعبیریں ڈھونڈنے والوں نے مگرابھی ہمت نہیں ہاری ۔ عین ان دنوں جب ملتان سمیت پورے پنجاب میں دہشت گردی کے خوف سے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ تفریحی و ثقافتی ادارے بھی بند کر دیئے گئے تھے ۔ اور جب ملتان کی انتظامیہ نے ملتان ٹی ہاؤ س اور ملتان آرٹس کونسل کو بھی بند کر دیا تھا اور گیت لکھنے اور گیت گانے والوں سے کہہ دیا تھا کہ آپ سب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں کہ ملتان کو دہشت گرد نشانہ بنا سکتے ہیں ، اور ہم سب ادبی و ثقافتی تقریبات منسوخ کر کے گھروں میں بیٹھ گئے تھے اور دہشت گردوں کا انتظار کرنے لگے تھے ۔ عین انہی دنوں امید کی ایک کرن سرگودھا اور دوسری لاہور میں روشن ہوئی ۔ سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر عامر سہیل کا بلاوا آیا کہ یونیورسٹی نے اپنے کانووکیشن کے موقع پر کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا ہے ۔ سو ہم جو دہشت گردوں کا انتظار کر رہے تھے ،کشاں کشاں سرگودھا پہنچ گئے ۔ سرگودھا جو ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ بہت عزیز رہا ۔ جو ادب کا دبستان کہلایا اور جہاں پہلے ہمارے ملتان کے شاعر، انشائیہ نگار اور براڈکاسٹر خالد اقبال نے پڑاؤ کیا اور ان کے بعد ڈاکٹر عامر سہیل اور ڈاکٹر شفیق آصف نے علم و ادب کی شمع روشن کر رکھی ہے، اور یہ شہر ہمارے دوست عاطف مرزا کی وساطت سے بھی تو ہمارے لئے معتبر ہے کہ عاطف نے ملتان میں قیام کے دوران ہمیں اس شہر کے گلی کوچوں اور یہاں کے ادبی منظر اور موسموں کی اتنی بہت سی کہانیاں سنائیں کہ ہم نے اس شہر کو عاطف کی آنکھ سے دیکھ لیا ۔ پتہ نہیں کیا کشش ہے اس شہر میں کہ ہمارے دوستوں میں سے جو بھی یہاں آیا اس نے واپس ملتان آنے کا نام ہی نہیں لیا ۔ بمشکل تمام ہم خالد اقبال کو ملتان واپس لے آئے کہ جنہوں نے کئی سال سرگودھا ریڈیو کی دنیا آباد رکھی ۔جی ہاں اسی سرگودھا میں یونیورسٹی کے اساتذہ نے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی قیادت میں ایک خوبصورت مشاعرہ سجا رکھا تھا ۔ڈاکٹر اشتیاق سے مختصر مگر بہت خوبصورت ملاقات ہوئی اور اس ملاقات میں اندازہ ہوا کہ جن نئے زاویوں اور جس نئی سوچ کے ساتھ وہ یونیورسٹی میں سرگرم ہیں اگر یہی سوچ ہر جگہ پروان چڑھ جائے تو تعلیمی میدان میں انقلابی تبدیلیاں آ سکتی ہیں ۔ مشاعرے کی تفصیل میں جانے کی بجائے ہم آپ کو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رات گئے تک جاری رہنے والے اس مشاعرے میں طلبہ و طالبات جس جوش و خروش کے ساتھ آخر وقت تک موجود رہے اس نے ہمیں ہی نہیں تمام شرکا کو بہت متاثر کیا ۔ دہشت گردی کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر بہار کا جشن سرگودھا والوں نے اس ڈھب سے منایا کہ خزاں کا خوف ہی بے معنی ہو گیا ۔ اور اس مشاعرے میں ہمیں یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ انعام الحق جاوید ، منصور آفاق ،مظہر نیازی اور قمر رضا شہزاد سے ہماری ایک اور ملاقات اگلے ہی ہفتے لاہور میں بھی ہو گی کہ جہاں ہم شاہ حسین کے بلاوے پر میلہ چراغاں میں شرکت کے لئے جائیں گے ۔ بلاوا شاہ حسین کا تھا لیکن اس میلے کے لئے آواز ہمیں ڈاکٹر صغریٰ صدف نے دی تھی ۔ قذافی سٹیڈیم میں پنجابی زبان و ادب اور ثقافت کی ترویج کے لئے کام کرنے والے ادارے پلاک کا دفتر پنجاب کے رنگوں سے آراستہ تھا اور پنجاب کے ان رنگوں کے ساتھ تمام صوبوں اور آزاد کشمیر کے رنگ بھی ہم آہنگ ہو رہے تھے ۔ میلہ چراغاں کے موقع پر ڈاکٹر صغریٰ نے پانچ روزہ تقریبات کا اہتمام کیا اور ان تقریبات کا ایک حصہ قومی زبانوں کا کل پاکستان مشاعرہ تھا جس کی صدارت اردو اور پنجابی کے نام ور شاعر ظفر اقبال نے کی اور مہمان خصوصی کرامت بخاری تھے ۔یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد مشاعرہ تھا۔ ایک خوبصورت منظر تھا کہ جس میں تمام خطوں کے شاعر اپنی اپنی زبان میں شعر سناتے تھے ۔اور وہ شعر ہمیں سمجھ بھی آ رہے تھے ، کہ شعر سمجھنے کے لئے صرف قومی زبانوں سے محبت ہی کافی ہوتی ہے ۔ یہیں سندھ کے نام ور شاعر امداد حسینی نے ’’ مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی‘‘ کی تضمین سنائی تو پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا اور پیغام یہ دیا سب نے کہ ہم شاہ حسین ، بابافرید، شاہ لطیف بھٹائی ، خوشحال خان خٹک ، مست توکلی ، وارث شاہ اور خواجہ فرید کے پیغام محبت سے وابستہ ہیں اور ہم انہی کے پیغام سے ان قوتوں کا مقابلہ کریں گے جو دھمال کو موت کے رقص میں تبدیل کرنا چاہتی ہیں ۔اسی تقریب میں پشاور سے آئے ہوئے معروف شاعر ناصر علی سید سے ملاقات ہوئی ،بابا نجمی ، ڈاکٹر اختر شمار ، افضل عاجز، احسان رانا ، سعد اللہ شاہ ، صوفیہ بیدار ، ایوب کموکا ، تجمل کلیم ، عدنان آصف بھٹہ ، طالب جتوئی بھی موجود تھے ۔ اور خود ڈاکٹر صغریٰ صدف تھیں کہ جو بیک وقت میلے کی مختلف تقریبات اور مہمانوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ مشاعرے کی نظامت بھی کر رہی تھیں ۔ڈاکٹر صغریٰ صدف کی قیادت میں پلاک جس انداز میں کام کر رہا ہے اس کا زمانہ معترف ہے اور ہم سرائیکی خطے کے باسی منتظر ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ نے ملتان میں بھی پلاک کی شاخ قائم کرنے کا جو وعدہ کیا ہے وہ کب پورا ہوتا ہے کہ ایسے ادارے کی اس خطے کو اس لئے بھی ضرورت ہے کہ جب پلاک جیسا ادارہ ملتان میں آ کر خواجہ فرید کے پیغام کو آگے بڑھائے گا تو اس کے نتیجے میں محرومیوں کا بھی ازالہ ہو گا۔ مشاعرے کے اختتام پر ایک خوبصورت اور دل پذیر ملاقات نوجون صحافیوں ارشد چودھری ، آصف بٹ اور رانا وحید سے بھی ہوئی کہ جس نے واپسی کے سفر کے لئے ہمیں تازہ دم کر دیا ۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ