ہم نے کہیں لکھا تھا کہ کہانی کا کیا ہے ، یہ تو کسی بھی موڑ پر کسی بھی وقت شروع ہوجاتی ہے۔اور کہانی کو ختم کہاں ہونا ہے اس میں کردار کون کون سے شامل ہونے ہیں، اس پر بھی تو ہمارا کوئی اختیارنہیں ہوتا۔ہماری زندگی بہت سی کہانیوں اور بہت سے کرداروں سے بھری ہوئی ہے ۔کچھ کردارتو راستے میں ہی راستہ بدل گئے اور کچھ اس جہان سے گزرگئے۔کچھ ایسے تھے کہ جن کی کہانی ختم ہوگئی اور وہاں ختم ہوئی جہاں ختم ہونی نہیں چاہیے تھی۔لیکن کہانی کا کیا ہے یہ اگر کسی بھی جگہ ،کسی بھی مقام پر اچانک شروع ہوسکتی ہے تو کہیں ختم بھی تو اچانک ہوجاتی ہے۔یہ سب باتیں ہمیں عبداللطیف بھٹی کی سرائیکی کہانیوں کے مجموعے”وترساخ“نے یاد دلائیں، اوراس لیے یاد دلائیں کہ اس کتاب کے ذریعے عبداللطیف بھٹی کے ساتھ ہماری محبت اور دوستی کا آغاز ہوا ہے ۔ عبداللطیف بھٹی کو ہم کئی برس سے اس شہر کے ادبی وثقافتی منظر میں سرگرم دیکھ رہے تھے۔عجب اتفاق کہ ہماری ان کے ساتھ شناسائی تو تھی ،ملاقاتیں بھی تھیں لیکن بس اس حد تک کہ ہم گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملاتے ،مسکرا کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کرتے اور پھر ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہوجاتے ۔بے تکلفی اور دوستی کے لیے کسی ایک ایسی نشست کی ضرورت ہوتی ہے جہاں آپ تنہا بیٹھیں ، آپ کے ساتھ گفتگو میں مداخلت کرنے والا اور آپ کو روکنے ٹوکنے اور گفتگو کا رُخ موڑنے والا کوئی نہ ہو، اوریہ موقع چند روز پہلے مجھے اور عبداللطیف بھٹی کو ملتان ٹی ہاﺅس میں میسر آ گیا۔ہم دونوں شایدمدت سے اسی لمحے کی تلاش میں تھے کہ ہم دونوں ہی کہانی شروع کرنا چاہتے تھے۔ اور کہانی بھی تو آغاز کے لیے کسی لمحے کسی مقام اور کسی برمحل موقع کی منتظر تھی۔اسی ملاقات میں عبداللطیف بھٹی نے ہمیں اپنی کہانیوں کا مجموعہ ”وترساخ“عطا کیا اور ہمیں وتر ساخ کے معانی بھی بتائے کہ وتر ساخ موسم کے پھل کو کہتے ہیں۔اسی ملاقات میں انہوں نے ”چھندپتری“کے حوالے سے اپنی زیرتکمیل کتاب پر بھی تفصیلی بات کی اور ہم نے اس حوالے سے انھیں مختلف شخصیات کے حوالے دیئے جو اس کتاب کی تکمیل میں ان کی معاونت کرسکتی ہیں۔128 صفحات پر مشتمل سرائیکی کہانیوں کا یہ مجموعہ بلاشبہ منفردبھی ہے اور اگر اسے سرائیکی کہانی میں خوبصورت اضافہ قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔نامور نقاد اور دانشور شمیم عارف قریشی ،مزار خان اور عاشق بزدار نے اس کتاب میں عبداللطیف بھٹی کے افسانوں پرتفصیل کے ساتھ اظہارخیال کیا ہے۔یہ کہانیاں حیران کردینے والی ہیں۔بظاہرچھوٹے چھوٹے موضوعات اورمنفرد کردار قاری کو اپنے حصار میں رکھتے ہیں۔وسیب کے بہت سے منظر اور وسیب کے بہت سے دکھ ان کہانیوں میں موجودہیں۔ٹوٹی پھوٹی گلیاں ،کچے مکان اور ان گلیوں میں بھاگتے دوڑتے کردار ان کہانیوں کو خوبصورت بناتے ہیں۔یہ کہانیاں اس لیے زندہ رہیں گی کہ ان میں ہمارا وسیب اور ہماری ثقافت سانس لیتی ہے۔ وترساخ نے افسانے کے موسم میں بلاشبہ ایک نئے ذائقے کو متعارف کروایا ہے۔کہانی شروع ہوئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ کہانی بہت دیر تک اور بہت دور تک میرے ساتھ چلے گی اور اس کہانی میں عبدالطیف بھٹی بھی میرے ہمسفر ہونگے۔
فیس بک کمینٹ