دعا ناامید موسموں میں امید کی آخری کرن کا نام ہے ۔ جب ساری تدبیریں الٹی ہو جائیں اور دوا بھی کوئی کام نہ کرے تو آخری سہارے اور آخری امید کے طور پر دعا کا ہی سہارا لیا جاتا ہے ۔ جب حوصلے پست ہو جائیں ، مسافروں کے پاؤں اور بدن لہو لہان ہو جائیں ، منزل دور بہت دور دکھائی دے اور مسافروں میں ایک قدم بھی آگے بڑھنے کی سکت باقی نہ رہے تو پھر دعا ہی مانگی جاتی ہے ۔ جب زندگی کی چلچاتی دھوپ بدن جھلسا دے ، دھرتی پیاس سے بلبلا اُٹھے ، دور دور تک کوئی ابر سایہ دار نظر نہ آئے تو بس دعا ہی کی جاتی ہے ۔ ہمارے بچپن میں گرمی اور پیاس سے بے حال والدین جب ساون سے نا امید ہو جاتے اور انہیں اپنی دعاؤں پر اعتماد نہ رہتا تھا تو بچوں سے کہا کرتے تھے کہ اب تم بارش کی دعا مانگو ۔ بچے اپنے چہروں پر سیاہی مَل کر گلیوں میں نکلتے اور آسمان کی جانب چہرے کر کے زور زور سے پکارتے ’’کالیاں اِٹاں ، کالے روڑ مینہ وَسا دے زور و زور ‘‘ ۔۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں ، بے گناہ ہوتے ہیں اور ان کی دعائیں جلد سنی جاتی ہیں۔ سو ہم اپنے گناہوں کی گٹھڑیاں کندھوں پر اٹھا کر مسجدوں اور اجتماعات میں چلے جاتے ہیں اور بچوں سے کہتے ہیں کہ تم گھر بیٹھ کر دعا مانگو تمہاری دعا جلد سنی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 70 برسوں سے کشمیر اور فلسطین کے لئے دعائیں سکول کے بچوں سے کرائی جا رہی ہیں ۔ ہم بھی اپنے سکول کے زمانے میں روزانہ صبح کلاس روم میں جانے سے پہلے کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی دعا کیا کرتے تھے ۔ ایک روز ہم نے اپنے ٹیچر سے سوال کرنے کی جرأت بھی کی تھی کہ ہم 10سال سے مسلسل ایک ہی دعا کیوں مانگ رہے ہیں اور ہماری دعا قبول کیوں نہیں ہو رہی ؟ یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ یا تو ہماری دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہے یا پھر کشمیر اور فلسطین کے عوام آزادی کے قابل نہیں ہیں۔ ایک اور سوال بھی ہمیں بار بار پریشان کرتا رہا مگر اس زمانے میں ہم نے خوف زدہ ہو کر اس سوال کو ذہن سے جھٹک دیا تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آج 35، 40 سال کے بعد ہمارے بچے بھی مسلسل وہی دعائیں مانگے چلے جا رہے ہیں ۔ کشمیر اور فلسطین کے ساتھ دعاؤں میں عراق اور افغانستان بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ہمارے بچے اب ملک میں امن و امان اور دہشت گردی کے خاتمے کی دعائیں بھی مانگ رہے ہیں۔ کسی مرحلے پر وہ بھی ضرور سوچیں گے کہ یا تو ان کی دعاؤں میں اثر نہیں یا پھر یہ ملک امن و امان کے قابل نہیں رہا ۔
ہمارا مسئلہ ایک اور بھی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم متضاد دعائیں مانگتے ہیں ۔ ہم ایک ہی وقت میں مجاہدین کی کامیابی کی دعا بھی کرتے ہیں اور دہشت گردوں سے نجات بھی چاہتے ہیں۔ وطن عزیز کو دہشت گردوں سے پاک بھی کرنا چاہتے ہیں اور لال مسجد کی سلامتی بھی چاہتے ہیں ۔ ہم بے معنی دعائیں مانگتے ہیں ۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی بجائے دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگتے ہیں ۔ ہمارے ذہن مقفل ہو چکے ہیں ۔ ہم برس ہا برس سے ایک ہی دعا مانگے چلے آ رہے ہیں ۔ دعا تبدیل کرنے کی جرأت بھی نہیں کرتے ۔ ایسے ماحول میں اگر نوازش علی ندیم دعا تبدیل کرنے کی جرأت کرتا ہے تو ہم حیرت سے اس کی جانب دیکھتے ہیں ۔ نوازش علی ندیم نے جس نظم کے عنوان کو اپنی کتاب کا سرنامہ بنایا ہے وہ اگرچہ محبت کی ایک نظم ہے لیکن یہ عنوان کتاب کا نام بننے کے بعد نئی معنویت کے ساتھ سامنے آیا ۔ اور وہ معنویت یہی ہے کہ ہمیں دعائیں مستجاب نہ ہونے پر مایوس ہونے کی بجائے دعا تبدیل کرنے کا حوصلہ کرنا چاہیے ۔ ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ممکن ہے ہم جسے برس ہا برس سے دعا سمجھ رہے ہیں وہ دعا ہی نہ ہو۔ ہم جس راستے پر مسلسل چل رہے ہیں ممکن ہے وہ راستہ ہی نہ ہو ۔ ورنہ ایسی بھی کیا بات ہے کہ لاکھوں ، کروڑوں افراد روزانہ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں اور وہ مقبول ہی نہ ہو ۔ قصور دینے والا کا تو ہو نہیں سکتا یقیناً مانگنے والوں کا ہی ہوگا ۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہم مانگنے والوں کو بھی غلط کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے ۔
نوازش علی ندیم صرف سوچنے ہی نہیں بہت کچھ کہنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے ۔
پوری نہ ہوئی کوئی دعا اب کے برس بھی
ناراض رہا ہم سے خدا اب کے برس بھی
جب سے اس کا ذکر ان آنکھوں کی عادت ہو گئی
رت جگے مذہب تو بے خوابی شریعت ہو گئی
جو تیرا درد مرے دل کا اعتکاف کرے
تو ہر خوشی مجھے پوجے مرا طواف کرے
محبت اور رتجگوں کو مذہب اور بے خودی کو شریعت بنا لیا جائے تو زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ آسانیاں جو کسی بھی شخص کو قناعت پسند بنا دیتی ہیں۔ جو انسانیت کا احترام سکھاتی ہیں ۔ مشکلات کو ہنس کر برداشت کرنے کا حوصلہ دیتی ہیں۔ نوازش علی ندیم محبت کی سرشاری میں رہنے والا شخص ہے ۔ ایک باہمت اور حوصلہ مند شخص ، زندگی کو اپنا استاد تسلیم کرنے والا شخص ۔ اس کی پوری زندگی ہمارے سامنے شفاف آئینے کی طرح ہے ۔ ایک ایسا آئینہ جو بدصورت معاشرے میں بھی خوبصورتیاں تلاش کرتا ہے ۔ ہماری رفاقت کا عرصہ کم و بیش 30برسوں پر محیط ہے ۔ یہ اسی خوبصورت دور میں مجھے ملا تھا جب میری شاکر حسین شاکر اور قمر رضا شہزاد سے ملاقات ہوئی تھی ۔ جب اطہر ناسک ، اختر شمار اور اسلام تبسم میرے ہم رکاب ہوئے تھے اور جب اس شہر میں نوجوانوں کی وہ کھیپ موجود تھی جو کالج اور سکول کے زمانے میں بھی اخبارات اور رسالے شائع کرتی تھی ، تقریبات منعقد کرتی تھی اور اب تو اردو اکیڈمی میں بھی پہلے جیسی بات نہیں رہی اس دور میں تو اس شہر میں چلڈرن رائٹرز سوسائٹی بھی فعال ہوا کرتی تھی ۔
ہم میں سے کوئی بھی سونے کا چمچ لے کر نہیں آیا تھا ۔ سب نچلے اور پسماندہ یا زیادہ سے زیادہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان تھے ۔ جنہیں جیب خرچ بھی گنا چنا ملتا تھا ۔ اس جیب خرچ سے انہیں چائے بھی پینا ہوتی تھی اور اخبارات اور کتابیں بھی خریدنا ہوتی تھیں ۔ نوازش علی ندیم سے اس دور میں ہونے والی ملاقاتیں بہت محدود تھیں ۔ وہ زندگی کی بے رحمی کا مقابلہ کر رہا تھا ۔ سائیکل پر حسن آباد سے کینٹ آتا تھا اور ایک فوٹو لیبارٹری میں ڈیوٹی کرتا تھا ۔ درمیان میں کبھی کبھار کوئی مہلت ملتی تو دو چار ماہ میں ایک بار ہم سے بھی مل جل لیتا تھا ۔ خاموش رہتا تھا ، زیادہ بات نہیں کرتا تھا ۔ آج 40برس بعد وہ مجھ سے تو کھل چکا ہے لیکن خاموش رہنے سے زیادہ بات نہ کرنے والی ادا اب بھی اس میں موجود ہے ۔ اور اس کی یہی ادا مجھے پسند بھی ہے ۔ طفیل ابنِ گُل سے بھی مجھے اس لیے محبت ہوئی تھی کہ وہ بھی کسی کے ساتھ جلدی کھلتا نہیں تھا ۔ اپنے دکھوں کی چادر اوڑھ کر بیٹھا رہتا تھا ۔ نوازش بھی ویسا ہی ہے ۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اگر نوازش اور طفیل کے ساتھ میرے تعلق کی وجہ ان کی لاتعلقی اور خاموشی ہے تو شاکر حسین شاکر اور اطہر ناسک جیسے باتونیوں اور فوری طور پر تعلق قائم کر لینے والے دوستوں کے ساتھ میری محبت کی وجہ کیا ہے ۔ تو جناب یہی تو محبت کا نہ سمجھ آنے والا بھید ہے کہ یہ متضاد طبیعتوں میں بھی پروان چڑھتی ہے اور ناموافق حالات بھی اس کے لیے سازگار ہوتے ہیں ۔ محبت کوئی دعا تو نہیں ہے کہ بے اثر ہو جائے یا اسے تبدیل کرنا پڑے ۔
نوازش علی ندیم ایک سچا، کھرا ، مخلص اور کمٹڈ انسان ہے ۔ وسیع مطالعے اور زندگی کے کٹھن تجربات نے اس کی شاعری میں کئی رنگ بھر ے ہیں ۔ وہ خاموش اس لیے رہتا ہے کہ اس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے ۔ وہ اپنے شاعر ہونے پر گھمنڈ نہیں کرتا ۔ وہ کسی نوجوان شاعر کو یہ نہیں کہتا کہ تم عمر بھر شعر نہیں کہہ سکو گے ۔ وہ کسی مشاعرے میں جانے سے یہ کہہ کر معذرت نہیں کرتا کہ مجھے ایک اچھی غزل سنانے کی پاداش میں 40 بُری غزلیں سننا پڑیں گی ۔ وہ صرف احترام آدمیت کا درس ہی نہیں دیتا خود بھی اس پر عمل کرتا ہے ۔ نظم ہو یا غزل اس کا منفرد اسلوب اور لب و لہجہ دور سے پہچانا جاتا ہے ۔ جو رچاؤ اور چاشنی اس کی شاعری میں ہے وہی اس کی شخصیت میں بھی موجود ہے ۔ وہ اپنا شعری مجموعہ 30برس کی ریاضت کے بعد لایا ہے ۔ اور اس تاخیر کی بنیادی وجہ بھی اس کا مزاج ہے ۔ وہ خود کو چھپا کر رکھنا چاہتا ہے ۔ خود کو ارزاں نہیں کرنا چاہتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اب وہ خود کو چھپا کر نہیں رکھ سکے گا ۔ اس کی شاعری کی مہک اب ہر سو پھیل رہی ہے ۔ وہ چھپ بھی جائے تو لوگ اس مہک کے ذریعے اسے تلاش کر لیں گے ۔
آئیے دعا کریں کہ اس کی شاعری اسی طرح مہکتی رہے ۔
آئیے دعا کریں کہ اس کی زندگی اسی طرح لہلاتی رہے ۔
یہ ایک ایسی دعا ہے جو ہمیں کبھی تبدیل بھی نہیں کرنا پڑے گی ۔