دو بھائیوں کی دکان ضروری تو نہیں کہ مشہور بھی ہو لیکن اسے دو بھائیوں کی مشہور دکان ہی کہا جاتا ہے بلکہ سعودی عرب سے محبت میں ہم تو ہر مشہور کو المشہور کہتے ہیں ۔ یہ دکان پہلے پہل ہم نے اپنے شہر ملتان میں ہی دیکھی تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ یہ خاص دکان صرف ہمارے شہر میں ہی موجود ہے ۔ پھر پتہ یہ چلا کہ دو بھائیوں کی دکانیں تو دیگر شہروں میں بھی موجود ہیں۔ ہم نے ایک دوست سے دریافت کیا تھا کہ دو بھائیوں کی دکانوں کی وجہ شہرت کیا ہے ۔ کہنے لگے ان کی وجہ شہرت دو بھائی ہی ہوتے ہیں ۔
اس نے یہ بھی کہا کہ دو بھائیوں کی دکانیں اپنے مصنوعات یا معیار کی وجہ سے مشہور نہیں ہوتیں۔ بسا اوقات تو ان دکانوں پر مال بھی ناقص ہی ملتا ہے لیکن یہ پھر بھی مشہور ہو جاتی ہیں۔ اور شہرت کی وجہ بھائیوں کا اتفاق ہوتا ہے اور اسے اتفاق میں برکت کی عملی تصویر بھی سمجھا جاتا ہے ۔ اس پر اگر آپ کو اتفاق فونڈری یاد آ گئی ہو تو س میں ہمارا کوئی قصور نہیںکہ یہ فونڈری تو محض اتفاق و اتحاد کی ابتدا تھی۔
ہمیں یہ دکانیں آج اس لئے یاد آئیں کہ آج کل سیاست میں بھی دو بھائیوں کی دکان کا تذکرہ جاری ہے اور یہ دکان ہے مسلم لیگ ن ۔خبر یہ ہے کہ نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمشن نے اعلان کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم اب پارٹی کی صدارت کے لئے بھی نا اہل قرار پا چکے ہیں ۔ ن لیگ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے نئے صدر کا انتخاب عمل میں لائے ۔ الیکشن کمشن سے یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ اگر نا اہل وزیر اعظم نئے کابینہ کی تشکیل کے عمل میں شریک ہو سکتے ہیں اور انہی کے مشورے سے حکومت بھی چلائی جا سکتی ہے تو بھلا وہ پارٹی کیوں نہیں چلا سکتے ؟
خیر الیکشن کمیشن کی ہدایت پر مسلم لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ پارٹی کی قیادت اب شہباز شریف کے حوالے کر دی جائے گی اور جب تک انہیں نا اہل قرار نہیں دیا جاتا وہ پارٹی کی قیادت کرتے رہیں گے۔
اس بارے میں ابھی تک بہر حال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ شہباز شریف کے پارٹی صدر بن جانے کے بعد کیا پارٹی مسلم لیگ ن ہی کہلائے گی یا اسے مسلم لیگ ش کا نام دے دیا جائے گا ؟
یہ فیصلہ ان لمحوں میں سامنے آیا کہ جب نواز شریف آج جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور کی جانب روانہ ہونے والے ہیںاور جی ٹی روڈ پر ان کی بریکیں لگوانے کے لئے طاہر القادری بھی میدان میں آ چکے ہیں۔ سب مہرے حرکت میں ہیں اور اگر نواز شریف کسی سازش کی بو سونگھنے کے بعد آج خود ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں بریکیں لگا دیںتو ہم سب ان کی’ سیاسی بصیرت‘ کے مزید قائل ہو جائیںگے ۔لاہوراور اسلام آباد کے دانشور تو ’’ بلا وجہ ‘‘ کبھی کسی کی حمایت نہیں کرتے لیکن ہم ملتان والے تو پھر مفت میں ہی نواز شریف اور ش لیگ کے اسیر ہو جائیںگے ۔۔ برا وقت تو کسی پر کسی بھی وقت آ سکتا ہے ۔ بس ہمارے حق میںدعا کیجئے ۔۔
فیس بک کمینٹ