یقین جانئے کہ ہم بہت بے یقینی کی صورت حال سے گزررہے ہیں۔ اگر ہماری اس بات پر یقین نہ آئے تو کسی بھی روز رات کو ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز سنئے۔بے یقینی کے عالم میں خواب خرگوش یا بے خوابی کے مزے لیجئے اور جب آپ صبح اٹھیں گے تو صورت حال یکسر مختلف پائیں گے۔ یقین اور بے یقینی کایہ عالم یوں تو ہمیشہ سے ہے لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران یہ کیفیت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔شطرنج کے کھیل میں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ بادشاہ،وزیر اورپیادے کیا چال چلنے والے ہیں اوراس چال میں توپ کا کیا کردار ہوگا۔ بے یقینی کی اس کیفیت نے سب کو شش وپنج میں مبتلا کررکھا ہے۔ اب یہی دیکھیں کہ چند روز پہلے تک چودھری نثار علی خان بہت مضبوط اور مسلم لیگ کے لیے ناگزیر دکھائی دیتے تھے۔خواجہ آصف اورخواجہ سعد رفیق کا شمار ان وزراءمیں ہوتا تھا جن کے بارے میں گمان تھا کہ ”مقتدرحلقے“ انہیں ناپسند کرتے ہیں۔ اسحاق ڈار کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے اورنوازشریف، ان کے بچوں اور داماد کے ساتھ ساتھ اسحاق ڈار کے بارے میں بھی یہی تاثر تھا کہ وہ جے آئی ٹی کی جانب سے ملزم قراردیئے جانے کے بعددوبارہ کم ازکم اس وزارت میں تو نہیں آئیں گے جو وزارت لوٹ مار کا مرکز رہی۔ اس تمام عرصے میں شہبازشریف کانام وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طورپر لیاجاتارہا اور یہ بھی کہہ دیا گیاتھا کہ وہ لاہور کے حلقے این اے 120سے الیکشن لڑیں گے۔ یہ وہی حلقہ ہے جہاں سے سابق وزیراعظم نوازشریف نے کامیابی حاصل کی تھی اور انہیں نااہل قراردیئے جانے کے بعد یہ نشست خالی ہوگئی۔ احسن اقبال کانام بھی فیصلہ آنے سے پہلے ممکنہ وزیراعظم کے طورپر لیا جارہاتھا اور اگرچہ چودھری نثار علی خان نے فیصلہ آنے سے ایک روز قبل پریس کانفرنس میں کہہ دیا تھا کہ فیصلہ جو بھی آیا وہ وزارت داخلہ سے مستعفی ہوجائیں گے، لیکن ان کی پریس کانفرنس کے چند ہی لمحوں بعد جب وزارت داخلہ کے ترجمان نے یہ تردید کی کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں استعفے کی وہ بات نہیں کی جو سب نے دیکھی اورسنی ہے تو پھرگمان ہوا کہ اگلی کابینہ میں بھی وزارت داخلہ کا قلمدان چودھری نثار علی خان کے پاس ہی رہے گا۔ جمعہ کے روز جب نئی کابینہ نے حلف اٹھایا تو صورت حال یکسر تبدیل دکھائی دی۔ ہم بے یقینی کی کیفیت سے ایک بار پھر یقین کے مرحلے میں داخل ہوگئے۔ہمارے ہاں عمومی تاثر یہ ہے کہ وزارت خارجہ کا قلمدان عموماً فوج اپنے پاس رکھتی ہے اور اگر اس وزارت کے لیے کابینہ میں کسی کووزیر نامزد بھی کیاجائے تو اس کے لیے ضروری ہوتاہے کہ اسے فوج کااعتماد حاصل ہو۔حیرت ہے کہ یہ اہم وزارت خواجہ آصف (جنہیں فوج کا ناپسندیدہ سمجھا جاتاتھااورجن کے بارے میں بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ وہ گزشتہ چار برس کے دوران ایک مرتبہ بھی اپنی وزارت میں نہیں گئے ) کے حوالے کردی گئی۔ یعنی جسے فوج کا ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا وہ فوج کا بااعتماد قرارپایا اور چودھری نثار جنہیں ان کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے فوج کانمائندہ کہا جاتاتھا اس کابینہ میں ان کا کہیں نام ونشان بھی نہیں۔وزارت داخلہ کا قلمدان چودھری نثار کی بجائے احسن اقبال کے سپرد کردیاگیا ہے۔ ایک اور ”ناپسندیدہ“ خواجہ سعد رفیق دوبارہ اپنی وزارت پر بحال ہوچکے ہیں۔ میڈیا پر مسلسل نوازشریف کی وکالت کرنے والوں کو بھی دوبارہ وزارتیں مل چکی ہیں۔ کچھ نئے لوگ بھی کابینہ میں شامل کیے گئے ہیں۔ اور اب جب یہ کابینہ تشکیل پا چکی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نوازشریف کی حکومت توکبھی ختم ہی نہیں ہوئی تھی۔بالکل اسی طرح جیسے جنرل ضیاءکا دور 1977ءکے بعد سے تسلسل کے ساتھ جاری دکھائی دیتا ہے۔ این اے 120کے لیے شہبازشریف کی بطور امیدوارنامزدگی بھی سردست موخر کردی گئی ہے کہ موجودہ منظر نامے میں مسلم لیگ(ن) کے لیے پنجاب پر شہبازشریف کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط رکھنا بہت ضروری ہوگیاہے۔ نومنتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب کے دوران ایک جملہ کہا تھا کہ یہ عہدہ اگرچہ مجھے 45دن کے لیے ملا ہے لیکن ہم نے ان 45روز میں 45ماہ کا کام کرنا ہے۔ اب جب کابینہ تشکیل پائی توان کے اس جملے کا مطلب بھی بہت سے لوگوں کو سمجھ آنا شروع ہوگیا ہے۔اب عمومی تاثر یہ ہے کہ شاہد خاقان عباسی اور ان کی 43رکنی کابینہ شاید 45روز کے لیے قائم نہیں ہوئی اور یہی لوگ 2018ءکے انتخابات تک حکومت کی مدت پوری کروائیں گے اور پھر نئے انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔ لیکن یقین اور بے یقینی کی اس کیفیت میں کچھ آوازیں مختلف بھی سنائی دے رہی ہیں۔شکوک و شبہات پیداکرنے والوں کا خیال ہے کہ چودھری نثارکی اس کابینہ میں غیرموجودگی معنی خیز ہے اور شاید ان کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے ان سے کوئی بڑا کام لینا مقصود ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ دیا جارہاہے کہ چودھری نثار نوازشریف کو مشکل سے نکالنے کے لیے پس منظر میں گئے ہیں۔اس صورت حال میں اگر اسحاق ڈار تمام تر الزامات کے باوجود اپنے سابقہ منصب پر موجودہیں تو پھر باقی سوالات بے معنی ہوجاتے ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم اوران کی کابینہ کاپہلا ٹاسک شاید یہ ہوگا کہ وہ کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس کے ذریعے پارلیمنٹ میں موجود اکثریت کے بل بوتے پر ایسی قانون سازی ہوسکے جس کے نتیجے میںسابق وزیراعظم کو نااہلی کی تلوار اور احتساب کے شکنجے سے بچا جاسکے۔اس قانون سازی کے لیے انہیں خیبرپختونخواہ اور سندھ اسمبلی کی حمایت بھی درکارہوگی۔ خیبر پختونخواہ میں شاید تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پرویز خٹک سے نجات حاصل کی جائے گی اور سندھ اسمبلی جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں مسلم لیگ(ن)کاساتھ دے دے گی اورجمہوریت کا”وسیع تر“ مفاد یہی ہو گا کہ آصف زرداری،ڈاکٹر عاصم سمیت پیپلزپارٹی کے جو سرکردہ افراد گرفت میں آرہے ہیں نوازشریف کے ساتھ ہی انہیں بھی ریلیف مل جائے۔ قارئین کرام یہ یقین اوربے یقینی کی صورت حال میں تحریر کیاگیا کالم ہے اور شاید آپ کو اس کے بہت سے مندرجات سے اتفاق بھی نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یقین اور بے یقینی کی کیفیت آئندہ چند روز میں کوئی اور رخ اختیارکرجائے۔ حکمران اس وقت جس خوش فہمی کاشکار ہیںممکن ہے آنے والے دنوں میں وہ خوش فہمی ہی ختم ہوجائے لیکن ابھی تو میدان لگا ہوا ہے۔ نوٹوں اورالزامات کی بارش بیک وقت جاری ہے۔کہانی کسی بھی وقت کوئی رخ اختیارکرسکتی ہے اور کہانی کا اختتام ہمیشہ کسی نادیدہ قوت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔وہ جب چاہتی ہے پیادے سے بادشاہ کو مروادیتی ہے۔جب چاہتی ہے شہ مات کردیتی ہے۔ اور جب چاہتی ہے شطرنج کی بساط پر توپ کو حرکت دیتی ہے۔ سوآئیے کسی پیش گوئی کے بغیر خاموشی سے اس کھیل کو دیکھتے ہیں جس میں نہ ہمارا کوئی کردار ہے اور نہ ہی کوئی مستقبل۔ ہم تو وہ پیادے ہیں جواس جنگ میں ہمیشہ سے کام آرہے ہیں اورشاید آنے والے دنوںمیں بھی ہمارا یہی انجام ہو گاجو پیادوں کاانجام ہوتاہے۔
فیس بک کمینٹ