موت ایک اٹل حقیقت ہے مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہمیں کبھی بھی اچھا نہیں لگتا۔ اور اچھا کیوں لگے؟ ہم اس حقیقت کو بھلا کیوں تسلیم کریں کہ ہمارا کوئی پیارا ہمیں ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ کر چلا جائے گا۔ ہمارے دوست ایک ایک کرکے رخصت ہوتے ہیں۔ ہم ان کی جدائی پر آنسو بہاتے ہیں مگر ذہنی طور پر انہیں کبھی بھی خود سے جدا نہیں کرسکتے۔ ہم کبھی یہ گمان بھی نہیں کرتے کہ ہمارا کوئی پیارا ہم سے بچھڑ جائے گا۔ اور ہم اس کی یاد منانے کے لئے تعزیتی جلسہ منعقد کریں گے اور یاد کریں گے کہ ہم اس سے آخری بار کب اور کہاں ملے تھے۔ اس نے آخری بار ہم سے کیا بات کی تھی۔ اس کے چہرے کا آخری تاثر جو ہم نے دیکھا کیسا تھا اور اس کی آخری آواز جو ہم نے سنی اس میں زندگی کی رمق موجود بھی تھی یا نہیں؟
کوئی پیارا زندگی کی آخری سانسیں بھی لے رہا ہو تو ہم اس کے ساتھ ملاقات کو ”آخری “ تصور کرنے کی ہمت نہیں کرتے ، اس یقین کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں کہ اگلی ملاقات میں وہ صحت یاب ہوچکا ہوگا۔ مگر کچھ فیصلے اور کچھ حادثے ہوتے ہیں کہ جن پر ہمارا اختیار ہی نہیں ہوتا۔ ہمیں بس یہی اختیار ہوتا ہے کہ ہم ضبط کرلیں اور اپنے آنسوﺅں کو سب کے سامنے پلکوں سے نہ ٹپکنے دیں مگر یہ ضبط بھی ہم آخرکب تک کرسکتے ہیں اور پھرضبط پر بھی ہمارا اختیارختم ہوجاتا ہے اور ہمارے آنسو تمام بندھن توڑتے ہوئے بے اختیار چھلک پڑتے ہیں۔
ہمیں یہ سب باتیں شعیب الرحمن کے ساتھ ہونے والی آخری ملاقات کے حوالے سے یاد آرہی ہیں۔ شعیب الرحمن کا تعلق خانیوال سے تھا۔ وہ بہت خوبصورت انسان اور اس سے بھی بڑھ کر ایک خوبصورت انشا پرداز تھے۔ادبی محفلوں کی جان تھے۔ ان کے جملے ،ان کے قہقہے محفلوں کو زعفران زار کیے رکھتے تھے۔شعیب الرحمن کے ساتھ ہماری آخری ملاقات خانیوال میں2005ء کے اوائل میں ایک شعری نشست کے موقع پر ہوئی تھی اور ملتان میں وہ ہم سے آخری بار اُسی سال نشتر ہسپتال میں ملے تھے۔ لیکن نشتر ہسپتال میں ہونے والی آخری ملاقات سے پہلے بھی اُن کے ساتھ ایک یادگار ملاقات ملتان کے ایک ہوٹل میں ہوئی تھی جہاں دیگر دوستوں کے علاوہ امجد اسلام امجد اور جبار مفتی بھی موجود تھے ۔ اُس محفل کو شعیب الرحمن نے اپنے خوبصورت جملوں کے ذریعے بہت خوبصورت بنائے رکھا تھا۔ خانیوال میں ملاقات کے موقع پر تو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ اسی سال ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائیں گے۔ ملتان میں اگرچہ انہیں بیماری کی حالت میں دیکھا مگر ان کا مخصوص قہقہہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ شعیب الرحمن زندگی کے دوسرے دکھوں کی طرح اس بیماری کو بھی قہقہے میں اُڑا دیں گے۔ مگر ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ایک قہقہہ موت نے بھی لگانا ہوتا ہے۔ شعیب الرحمن کا تعلق اگرچہ خانیوال سے تھا مگر ملتان والے بھی انہیں اسی شدت سے چاہتے تھے۔ وہ اپنے طرزِ تحریر سے ہی نہیں اندازِ گفتگو سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ جس محفل میں وہ موجود ہوتے تھے وہاں کتنا ہی ہجوم کیوں نہ ہو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اور کوئی موجود ہی نہیں۔ چٹکلے، برجستہ فقرے اور خوبصورت اشعار کا برمحل استعمال ان کی گفتگو کا خاصہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جملہ کیسے بنانا ہے۔ادبی سرگرمیوں سمیت مختلف موضوعات پر ان کے کالم ”دریچہء ادب“ کے نام سے شائع ہوتے تھے۔ مختلف تقریبات میں وہ دوستوں کے خاکے پڑھتے بلکہ خاکے اڑاتے تھے۔وہ اپنے ممدوح کو تاک تاک کر نشانہ بناتے اورلطف یہ ہے کہ ان کے ہونٹوں سے ادا ہونے والے اور قلم سے نکلنے والے الفاظ کسی کی دل آزاری کا سبب بھی نہ بنتے تھے۔ جو نشانہ بنتا وہ خود بھی جملے کا لطف لیتا تھا۔ کچھ خبر نہیں ہوتی تھی کہ وہ کب اچھے بھلے شعر میں معمولی ترمیم کرکے اسے کیا سے کیا بنادیں گے اور بعض اوقات تو وہ شعر یا مصرعے میں کوئی ترمیم بھی نہ کرتے مگر استعمال ایسا برمحل کرتے کہ اس کا مفہوم ہی تبدیل ہوجاتا تھا۔ شعیب الرحمن خانیوال کی مجلسی اور تہذیبی شخصیت تھے۔ ان کی موت سے یہ شہر واحد نثر نگار سے محروم ہوگیا ہے۔
میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ جب کوئی پیارا ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑتا ہے تو ہم صرف اس کی رفاقت سے ہی محروم نہیں ہوتے ہم ان محفلوں اور اس منظر نامے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں جو اس کی وساطت سے ہمیں میسر ہوتا ہے۔ ملتان میں حیدر گردیزی کی موت کے ساتھ ہی ادیبوں کی مجلسی زندگی کی موت بھی واقع ہوئی تھی۔ بابا ہوٹل اور اس کا سارا منظر نامہ ختم ہوگیا تھا۔ طفیل ابنِ گل رخصت ہوا تو اس کے ساتھ ہی وہ سڑکیں، گلیاں اور کرائے کے مکان بھی رخصت ہوگئے جہاں ہم اس کے حوالے سے جایا کرتے تھے۔ منیر فاطمی، تابش صمدانی، عارف محمودقریشی سے ملنے کے لئے ہم ضلع کچہری جاتے تھے ان کی موت نے وہ مخصوص منظر نامہ ختم کردیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی ایک شخص کی موت ہم سے بہت سے منظر نامے، راستے اور درودیوار بھی چھین لیتی ہے۔ شعیب الرحمن کی موت سے جو محفلیں ویران ہوئیں ان کا تو خود ہمیں بھی احساس ہے مگر جو منظر نامے ختم ہوئے ان کا اصل دکھ قمر رضا شہزاد اور طاہر نسیم کو ہوگاجواس کے ساتھ بہت سا وقت گزارتے تھے ۔اسی طرح نوازش علی ندیم بھی خانیوال میں ملازمت کے دوران شعیب الرحمن کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر شعر وادب پر گفتگو کرتے اور اس زندہ دل انسان کے قہقہوں میں شریک ہوتے تھے۔ شعیب الرحمن کی موت ایک ایسے قلمکار کی موت تھی جو زندگی کے مضحک کرداروں کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بے نقاب کرتا تھا۔ وہ اس بد صورت معاشرے سے خوبصورتیاں تلاش کرتا تھا۔ 25اگست کو شعیب الرحمن کی 12ویں برسی منائی جارہی ہے۔ ان 12برسوں کے دوران ہم جب بھی خانیوال گئے ہم نے شعیب الرحمن کو بہت یاد کیا۔ ایسے خوبصورت انسان کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ دکھی چہروں پر مسکراہٹ لانے کے فن سے واقف تھا۔ ایک ایسے عہد میں جب جینوئن قلمکاروں کا قحط الرجال ہے شعیب الرحمن کی موت ایسا خلا پیدا کرگئی جو کبھی بھی پر نہیں کیاجاسکے گا۔ہمارے پاس پہلے بھی بھی تو آنسوﺅں کی ہی بہتات تھی ۔چند قہقہے تھے جو شعیب الرحمن جیسے دوستوں کے باعث سلامت تھے۔موت نے 25اگست 2005ءکو ہم سے ہمارا وہ قہقہہ بھی چھین لیا۔
فیس بک کمینٹ