آج 18 برس بعد بھی معاملات کم وبیش اسی نہج پر آ چکے ہیں۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان کشیدگی گزشتہ کئی روز سے ابھر کرسامنے آ چکی ہے۔ تنازع کی بنیادی وجوہات کم وبیش وہی دکھائی دے رہی ہیں جو 1999ء میں تھیں۔اُس وقت کارگل کا تنازع رفتہ رفتہ منتخب حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا تھا۔ اب بھارت کے ساتھ کشیدگی کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات ہی اختلاف کی بنیاد ہیں۔ اُس وقت بھی غیرریاستی قوتیں جنہیں اب غیرریاستی اداکاروں کا نام دیا جاتا ہے، سرگرم تھیں۔ اوراس مرتبہ بھی غیرریاستی اداکاروں کی سرگرمیاں ایوانوں میں گرماگرمی پیدا کررہی ہیں۔ اُس وقت ابھی مولانا مسعود اظہر کا نام منظرعام پر نہیں آیا تھا۔ وہ حکومت ختم ہونے کے دوماہ بعد بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کے نتیجے میں رہائی پا کر پاکستان منتقل ہوئے تھے لیکن آج وہ پاکستان میں ہی محفوظ مقام پر موجود ہیں اوربھارت کی جانب سے ان کی حوالگی کے مطالبے ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب حافظ سعید کو بھی بھارت کی طرف سے سنگین الزامات کاسامنا ہے اور حکومت پر اس حوالے سے عالمی دباﺅ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہی وہ معاملات ہیں جو حکومت اور فوج کے درمیان بنیادی تنازعے کی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔اکتوبر1999ء میں جو شام اسلام آباد میں اتری وہ بعض افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے شام غریباں کی صورت اختیار کر گئی تھی۔ پرویزمشرف اس کے بعد طویل عرصہ بلاشرکت غیرے اقتدار پر قابض رہے۔ جمہوریت کی بساط لپیٹی گئی۔ جمہوریت پسندوں پر زندگیاں تنگ کر دی گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی جیسے سیاسی رہنماﺅں کو قتل کیا گیا۔ آئین توڑا گیا۔عدلیہ کو روندا گیا۔ لیکن وہ جس نے یہ سب کچھ کیا وہ آج بھی غداری، قتل اورایسے ہی سنگین جرائم کے باوجود دنیا بھر میں آزادی سے دندناتا پھر رہا ہے۔ اگرچہ اس کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا گیا تھا لیکن ہماری آزاد عدلیہ اسے بیرون ملک جانے سے نہ روک سکی۔ سوال یہ زیربحث ہے کہ ان 18 برسوں میں ہم نے کیا کھویا ،کیا پایا؟ اور کیا ہم نے تاریخ سے کوئی سبق بھی حاصل کیا؟ جواب یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کبھی بھی سبق حاصل نہیں کیا۔ اس مرتبہ جو شام اسلام آباد پر منڈلا رہی ہے اگر یہ کسی روز اتر آئی تو حالات میں معمولی سا بھی ارتعاش پیدا نہیں ہو گا۔ منتخب حکومت اور جمہوریت کا خاتمہ ہمارے ہاں معمول کی بات ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کی شام لاہور سمیت کئی شہروں میں منتخب حکومت کے خاتمے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور مبارکبادیں دی گئی تھیں۔ ممکن ہے کہ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو۔ ہم نے تاریخ سے چونکہ کچھ نہیں سیکھا اس لیے یہاں تاریخ خود کو باربار دہراتی ہے۔
فیس بک کمینٹ