جیری ڈگلس ایک سیماب صفت انسان تھا،ایک بے چین روح تھی ،ایک بے قرارشخص جو اچانک کبھی نمودارہوتا،ہم سے ملتا ہمارے ساتھ باتیں کرتا اور پھرجلد واپس آنے کا کہہ کر اچانک طویل عرصے کیلئے لاپتہ ہوجاتا۔وہ ایک خوشبو تھی جس کی مہک ہماری روح کو سرشارکرتی تھی ۔وہ ایک راگ تھا جس کے زیروبم میں ہمارا جیون دھڑکتاتھا اور وہ ایک دھڑکن تھی جوہمیں زندگی کااحساس دلاتی تھی۔ایک گلوکار جس کی آواز کانوں میں رس گھولتی تھی اور جوہمیں جیون کے گیت سناتا تھا ۔موت ہم سے ہمیشہ زندگی چھینتی ہے لیکن موت کا سب سے کاری وار وہ ہو تا ہے جب وہ ہم سے زندگی کاگیت بھی چھین لے۔28اکتوبر 2013ء کو موت نے ہم سے زندگی کا یہ گیت چھین لیا۔جیری ڈگلس نے ہمیشہ کیلئے آنکھیں موندھ لیں۔آنکھیں تواس نے20اکتوبر کی شب اسی وقت موند لی تھیں جب کلمہ چوک فلائی اوور کے پاس انکم ٹیکس دفتر کے قریب ایک کار سوار اسے کچلتا ہوا بے یارومددگار سڑک پر چھوڑ کر فرارہوگیاتھا۔جیری جو اس شہر کی دھڑکن تھا ،جو اس شہر کی پہچان تھا ،جو اس شہر کے وارثوں میں سے تھا،اسے لاوارث قراردیکر نشترہسپتال پہنچادیاگیا۔اس روز جب اس کی آنکھیں بند ہوئیں توکسی کوبھی یقین نہیں تھا کہ وہ دوبارہ آنکھیں نہیں کھولے گا۔وہ آنکھیں جن میں بہت سے خواب تھے،وہ آنکھیں جن میں بہت سی بے خوابی تھی،وہ آنکھیں جو بات کرتی تھیں،وہ آنکھیں جو شکوہ بھی کرتی تھیں اور وہ آنکھیں جن میں امید کے دیئے روشن تھے۔وہ آنکھیں28اکتوبر کو جیری کے ساتھ منوں مٹی میں چلی گئی۔
جیری ڈگلس کے ساتھ میری پہلی ملاقات 2003ء میں ہوئی جب وہ ملتان میں ایف ایم 103 کاسربراہ تھا۔یہ ملاقات ڈاکٹر عامرسہیل نے کرائی۔وہ ان دنوں اسی چینل پر ’’مسافتِ شب‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کرتے تھے۔مجھے اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ڈاکٹر عامرسہیل اور جیری ڈگلس نے میرا طویل انٹرویو کیا اور اسی دوران جیری نے میری دوغزلیں بھی گائیں۔اسی روز سے جیری بھی میرے حلقہ دوستاں میں شامل ہوگیا گویا ہم نے ایک ساتھ مسافتِ شب طے کرناشروع کردی۔کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ وہ اس ایف ایم کوخیرباد کہہ چکاہے۔اب کبھی کبھار شام کو کسی چائے خانے پر اس کے ساتھ ملاقات ہوتی ۔وہ کبھی موٹرسائیکل اورکبھی کیری وین (جسے عرف عام میں کیری ڈبہ کہتے ہیں)پر سوارہوتا سر پر اس نے یاسرعرفات کے سٹائل میں اسی رنگ کا رومال باندھا ہوتاتھا۔ملاقاتوں کایہ سلسلہ گاہے گاہے جاری رہا۔اسی دوران فون پربھی اس سے رابطہ ہوتا۔اچانک کسی روز ٹیلی فون بجتا دوسری جانب سے اس کی مسکراتی ہوئی آوازسنائی دیتی،’’مسلمانو،کیا حال ؟‘‘۔’’ہم خیریت سے ہیں کافرو‘‘ ،میں بھی اسی لہجے میں جواب دیتا۔اس کے ساتھ کفرواسلام کایہ معرکہ آخری دم تک جاری رہا۔
جیری ڈگلس بنیادی طورپرایک گلوکار تھا۔اول وآخرفنکار جس نے ساری عمر اپنے فن کے لئے وقف کردی تھی۔اردو اورپنجابی غزل ہو یا گیت وہ جب سُرچھیڑتا تو ماحول پر سحر طاری ہوجاتاتھا۔ایک خوبصورت اورہنس مکھ انسان جس کے ساتھ بیٹھتے تو وقت گزرنے کااحساس بھی نہ ہو تا۔گھنٹوں ملاقات کے بعد بھی جب وہ رخصت ہوتاتواس کے ساتھ دوبارہ ملنے کی خواہش ہوتی۔کم لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں کہ جو بہت کم وقت میں آپ کے دل میں یوں بسیراکرتے ہیں کہ پھر عمربھر کے لئے آپ کی ذات کاحصہ بن جاتے ہیں۔جیری بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔میری اس کے ساتھ طویل ملاقاتیں تو چندہی ہیں۔10سال کی رفاقت میں جب وہ جلد آنے کاکہہ کر طویل عرصے کیلئے لاپتہ بھی ہوجاتاتھامیں چاہتا بھی تو بھلا اس سے کتنی ملاقاتیں کرسکتا تھا۔ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ جب بھی ملا انتہائی والہانہ انداز میں اور بھر پوروارفتگی کے ساتھ ملا اورگفتگو بھی وہیں سے شروع کی جہاں آخری بار ختم ہوئی تھی۔ یہ وصف میں نے اورکسی میں نہیں دیکھا۔اس کے ساتھ رفاقت کے طویل لمحات مجھے اسی برس نصیب ہوئے جواس کی جیون کا آخری سال تھا۔ایک روز چلچلاتی دھوپ میں وہ میرے گھرآگیا۔دفتر سے اس ر وز میری چھٹی تھی۔ہم کئی گھنٹے ادب،موسیقی ،سیاست اور دیگر موضوعات پر گفتگو کرتے رہے ۔اس دوران باربار لوڈشیڈنگ بھی ہوئی لیکن اس روز ہمیں شدید گرمی کااحساس تک نہ ہوا۔عجیب جادوئی شخصیت تھی اس کی ۔پھراس نے ادبی بیٹھک میں باقاعدگی سے آنا شروع کردیا۔وہ شام کو بیٹھک شروع ہونے سے بہت دیر پہلے میرے دفتر آجاتا ۔ہم اکٹھے چائے پیتے اورپھر ادبی بیٹھک روانہ ہوجاتے۔اس نے یہ وعدہ بھی کیاتھا کہ وہ کسی شام ادبی بیٹھک میں اپنے فن کامظاہرہ کرے گا مگر افسوس کہ یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا اوروفا بھی کیسے ہوتا جب زندگی نے ہی اس کے ساتھ وفا نہ کی تھی۔وہ ان دنوں ذہنی الجھنوں کاشکارتھا۔رات کو تین یاچاربجے کے قریب اس کاایس ایم ایس موصول ہوتا ،کبھی کوئی شعر،کبھی کوئی غزل اورکبھی کوئی لطیفہ ۔میری جانب سے جوابی ایس ایم ایس پر اس کا ایک مسکراہٹ بھرا پیغام موصول ہوتا ’’ مجھے یقین تھا کہ رات کے اس پہرآپ کی جانب سے ہی جواب موصول ہوگا ،آپ بھی تو میری طرح جاگتے رہتے ہیں‘‘۔بہت کم لوگ جانتے ہونگے کہ وہ شاعربھی تھا۔اس نے بہت سی غزلیں مجھے سنائیں بھی اور ایس ایم ایس کے ذریعے ارسال بھی کیں۔
’’جیری بھائی ،آپ اتنے شعرکہتے ہیں انہیں منظرعام پر کیوں نہیں لاتے؟کتاب کیوں نہیں شائع کرواتے؟‘‘
’’نہیں نہیں،میں تو بس ٹوٹے پھوٹے لفظ جوڑتاہوں۔میری کیامجال کہ شعر کہوں‘‘۔
یہ اس کا روایتی اندازتھا۔عاجزی اور انکساری کا۔وہ بہت بڑا فنکار ہونے کے باوجود خود کو طفلِ مکتب کہتاتھا۔وہ بہت اچھا شاعر تھا لیکن شاعر ہونے کا دعوی ٰنہیں کرتاتھا۔بہت سے دکھ تھے اس کے دل میں جن کے اظہارکیلئے وہ کبھی موسیقی اورکبھی شاعری کو ذریعہ بناتاتھا۔مجھے وہ رات کبھی نہ بھولے گی جب اس نے مجھے فون کیا ،طویل گفتگو کی ،شعرسنائے ،اپنی تازہ دھن بھی سنائی اورپھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اس رات ہم دونوں بہت دیر تک جاگتے رہے تھے۔
’’معذرت رضی بھائی،میں نے آپ کو پریشان کردیا۔میں بس ایسا ہی ہوں‘‘۔
’’کوئی بات نہیں جیری میں بھی ایسا ہی ہوں‘‘
میرے جواب پر پھرایک مسکراتاہوا ایس ایم ایس میرے فون پر نمودار ہوگیا۔
ستمبر2013کے وسط میں اک شب اس نے مجھے ملتان پریس کلب میں اپنے ساتھ ہونیوالی شام میں شرکت کی دعوت دی مجھ سے وعدہ لیاکہ میں اس تقریب میں ضرور آؤں گااور اظہارِ خیال بھی کروں گا۔اگلے روز میں صبح جاگا تو اس کاپیغام فون پر موجودتھا کہ روزنامہ خبریں کے مقامی مدیر علیم چودھری صاحب کی وفات کی وجہ سے تقریب منسوخ کردی گئی ہے۔28ستمبر کو یہ تقریب دوبارہ منعقد ہوئی ۔ملتان پریس کلب کا ہال شائقین سے کھچا کھچ بھراہواتھا۔تقریب کے دوران منسوخ شدہ تقریب کا تذکرہ بھی لطیف پیرائے میں جاری رہا۔صدر پریس کلب راناپرویزحمید نے ازراہِ تفنن یہ بھی کہا کہ’’ جیری نے آج شام کو یاددہانی کافون کیا تو میں سمجھا کہ آج پھر کوئی دوست رخصت ہوگیا ہے اور تقریب منسوخ کردی گئی ہے‘‘۔اس جملے پرپورا ہال زعفران زارہو گیا۔جیری نے بھی اس جملے کا لطف لیا اور بھر پور قہقہہ لگایااورشاید اس لیے لگایا کہ اس تقریب کے ٹھیک ایک ماہ بعد وہ خود ہمیں داغِ مفارقت دینے والاتھا۔وہ تقریب کے دوران میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا۔خوبصورت کڑھائی والے کپڑے اسے خوب جچ رہے تھے۔پھر وہ محفل میں غزل سرا ہوا تو اس نے میری ایک غزل بھی بہت محبت بھرے جملوں کے ساتھ اپنی خوبصورت آواز میں سنائی۔
ایک لمحے کو ذرا تھم تو سہی تیزہوا
ہے مر ے سامنے تاریک گلی،تیزہوا
میں نے تو یہ شعر نہ جانے کس کیفیت میں کہاتھا لیکن جیری نے اسے جس ڈھب سے اور جس کیفیت میں گایااس کی سمجھ مجھے 28اکتوبر کوآئی جب تیزہوا کے جھونکے نے جیری کو تاریک گلی میں دھکیل دیا۔وہ 20اکتوبر سے ہسپتال میں زیرعلاج تھا۔میں شاکر حسین شاکر کے ساتھ اس کی عیادت کیلئے گیا مگر اس کمرے میں جانے کاحوصلہ نہ کرسکا جہاں وہ مصنوعی تنفس کے سہارے زندگی کی آخری سانسیں لے رہاتھا۔26اکتوبر کوملتان میں معروف شاعرہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ کی کتاب ’’ اور شام ٹھہر گئی‘‘ کی تعارفی تقریب منعقد ہوئی۔تقریب کے دوران میں نے جو مضمون پڑھا اس کا آخری جملہ کچھ اس طرح تھا’’جیری کے جیون کی شام ٹھہر گئی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ایک نہ ایک روز آٰنکھیں ضرورکھولے گا اور ہمیں زندگی کے گیت سنائے گا‘‘۔لیکن جیری نے آنکھیں نہ کھولیں اور اس لئے نہ کھولیں کہ وہ پریس کلب والی تقریب کے بعد مجھ سے جلد ملنے کا وعدہ بھی نہیں کر کے گیا تھا۔
28اکتوبر کو مجھے قطر کیلئے روانہ ہونا تھا دوپہر کے قریب لاہور جانے والی بس پر سوارہوا تو ایک ہی سوال میرے ذہن میں تھاکہ کیا واپسی پر میری جیری سے دوبارہ ملاقات ہوسکے گی۔یہ سوال اس لیے بھی میرے ذہن میں آیا کہ میں جب 2012ء میں سعودی عرب روانہ ہواتھا تو واپسی تک میرا بہت پیارا دوست راشد نثار جعفری رخصت ہوچکا تھا۔نثار کی موت کی خبر مجھے مدینہ میں اس وقت ملی جب میری ڈھارس بندھانے والا بھی کوئی نہیں تھا اورجہاں آنسو بہانے کیلئے مجھے کوئی شانہ بھی میسر نہ تھا۔مسافربس ابھی ساہیوال بھی نہ پہنچی تھی کہ سجاد جہانیہ کاپیغام موصول ہوگیا ’’ جیری ڈگلس اب ہمارے درمیان نہیں رہے‘‘۔وہی ہوا جس کامجھے دھڑکا تھا ۔جیری چلاگیا اورایک بار پھرمیرے پاس آنسو بہانے کیلئے کوئی شانہ نہیں تھا۔میں آج بھی اس شانے کی تلاش میں ہوں جس پر سر رکھ کر مجھے نثار اور جیری کے لئے آنسو بہانے ہیں ۔
یہاں تک آپ نے جو کچھ پڑھا مضمون کا یہ حصہ 2014 میں جیری کی پہلی برسی پر تحریر کیا گیا تھا ۔ جیری کی اہلیہ جبیں جیری نے ان کی وفات کے بعد مجھ سے اصرار شروع کر دیا تھا کہ میں جیری کے لئے فوری طور پرکوئی مضمون لکھوں۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ میںفوری طور پر مضمون نہیں لکھ سکتا ۔ جیری مجھ سے خود کسی روز یہ مضمون لکھوا لے گا ۔ لیکن بھابھی کا اصرار بڑھتا چلا گیا ۔ اسی دوران جیری کی پہلی برسی آ گئی ۔ بھابھی نے ایک بار پھر رابطہ کیا ۔ کہنے لگیں آپ نے تو مضمون نہیں لکھنا میرا مضمون تو کسی اخبا ر میں شائع کرا دیں۔ میں نےکہا ملتان کے اخبارات میں میرے مضامین شائع نہیں ہوتے اور نہ میں وہاں کسی کو آپ کے مضمون کی سفارش کر سکتا ہوں۔ میری معرفت ا خبار ات کے دفا تر میںجانے والی تحریریں اور خبریں ردی کی ٹوکری کا رزق ہو جاتی ہیں ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے بعد ازاںانہوں نے اپنا مضمون جمشید رضوانی کی معرفت جنگ میںشائع کرایا تھا ۔ جبیں اور جیری ایک ہی گلی میں کھیلتے کھیلتے جیون ساتھی بنے تھے ۔ بھابھی کے ساتھ اس سے پہلے ایک ملاقات ڈاکٹر عامر سہیل کے ہمراہ اس تقریب میں ہوئی تھی جس کا اہتمام کئی برس قبل جیری نے سال نو کی پہلی شب ایک محفل موسیقی کی صورت میںکیا تھا ۔وہ ایک بہت سرد رات تھی اور انڈسٹریل اسٹیٹ کے علاقے میںایک گرجا گھر کے کمیونٹی سینٹر میں جیری نے آواز کا جادو جگاکر سردی کا احساس کم کرنے کی کوشش کی تھی ۔اسی تقریب کے اختتام پر جیری نے بھابھی سے میرا تعارف بھی کرایا تھا ۔ جیری کے انتقال کے بعد بعض دوستوں نے تاثر دیا کہ شاید اس کے اب بھابھی کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں رہے تھے ۔ لیکن بھابھی نے کبھی ایسا تاثر نہیںدیا تھا اور خود جیری کی زبانی بھی میں نے ایسی کوئی بات کبھی نہیں سنی تھی ۔ بعد کے دنوں میںکبھی کبھار بھابھی کا کوئی پیغام فون پر موصول ہو جاتا ۔ وہ جیری کا کوئی شعر ایس ایم ایس کرتی تھیں ۔ یا ریڈیو پروگرام کے دوران مجھ سے کسی ایسی غزل کی فرمائش کرتی تھیں جو جیری کو پسند تھی یا جس غزل کے ساتھ ان کی جیری کے حوالے سے کوئی یاد وابستہ تھی ۔ جیری کی ہر برسی پر ان کا فون یا ایس ایم ایس مجھے اور جیری کے بعض دوستوں کو موصول ہوتا تھا ۔ جیری کے بعد وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئی تھیں ۔سنا ہے بچوںکے ساتھ بھی ان کی نہیں بنتی تھی ۔ پھر کوئی چھ ماہ قبل معلوم ہوا کہ انہوں نے خواب آور گولیاںکھا کر اپنے خوابوں اور جیری کی یادوں سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کر لی ۔ وہ اس سے پہلے بھی یہ کوششیں کر چکی تھیں مگر آخری کوشش بہت بھر پور تھی جس میںزندگی کا کوئی امکان بھی باقی نہ رہا ۔ آج جیری کی برسی کے موقع پر میں بھابھی کا بھی ذکر کر رہا ہوں اور اس لئے کر رہا ہوں کہ جیری کا ذکر تو ممکن ہے اس کے دوست کبھی کہیں کرتے ہی رہیں گے لیکن بھابھی جبیں کا ذکر شائد کوئی بھی نہیں کرے گا ۔ اس مرتبہ تو انہوں نے جیری کی یاد منانے کا تقاضہ بھی نہیں کیا ۔ اس کی برسی پر کوئی ایس ایم ایس بھی مجھے نہیں آئے گا ۔ کہ وہ خود بھی اب جیر ی کے پہلو میں آسودہ خاک ہیں ، اسی گرجا گھر کے قریب جہاں ایک سرد رات میںجیری نے آواز کا جادو جگایا تھا اور میرا ان سے تعارف کرایا تھا ۔میں آج انہیںاسی مضمون کا حصہ بنا رہا جو شاید میںنےجیری کے نہیںانہی کے اصرار پرلکھا تھا ۔
فیس بک کمینٹ