بدھ 4اکتوبر کی شب سونے سے پہلے میں تلاش تو اپنا ایک کالم کر رہا تھا لیکن میرے سامنے 1983 کی وہ تصویر آ گئی جو میرے صحافتی کیرئیر کے پہلے برس کی یاد ہے۔اس تصویرمیں روزنامہ سنگ میل ملتان کے آفس کی چھت پر میرے ساتھ علی اعجاز نظامی مرحوم ،امتیاز روحانی اور انتہائی بائیں جانب افضل چوہدری کھڑے ہیں ، افضل چوہدری ڈاکٹر حنیف چوہدری مرحوم کے صاحبزادے تھے اور شعبہ صحافت میں میرے پہلے استاد۔جب میں نے مارچ1983ءمیں روزنامہ سنگ میل میں کام شروع کیاتو افضل چوہدری نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے اس اخبار کے ساتھ وابستہ تھے۔وہ ریڈیو مانیٹرنگ کرتے اورنامہ نگاروں آور رپورٹروں کی خبروں کی ایڈیٹنگ کرتے تھے۔ اس اخبار میں رپورٹنگ کے شعبے سے گوہرجاوید، سلیم شاداور عارف محمودقریشی منسلک تھے۔ عارف محمودقریشی ان دنوں شاہی قلعہ کاٹ کر آئے تھے۔ ان کے ساتھ افضل چوہدری کی چھیڑ چھاڑ رہتی تھی اور افضل چوہدری کے ساتھ میں بھی نوک جھونک میں شامل ہوجاتاتھا۔پتا نہیں کیوں عارف محمودقریشی ایک دن ماموں کے نام پر بھڑک اٹھے ۔اب جوبھی انہیں ماموں کہتا وہ اسے اندرون شہروالی زبان میں جواب دینے لگتے پھر ماموں ان کی چڑ بن گئی ۔میں دوتین روز کے لیے بیمارہوا تو عارف محمودقریشی نے پوچھا خیریت تھی رضی تم آئے نہیں، میں نے کہا میرے ماموں بیمارتھے انہیں دیکھنے گیاتھا۔عارف محمودقریشی کاچہرہ ایک لمحے کے لیے سرخ ہوا لیکن پھر انہوں نے یہ سوچ کر ضبط کرلیا کہ ممکن ہے یہ واقعی ماموں کی عیادت کے لیے گیاہو۔
کیا ہوا تھا انہیں اورکہاں رہتے تھے وہ؟
اس سوال پر میں نے اطمینان سے جواب دیا ،بس ان کی طبعیت بگڑ گئی تھی مجھے فوری طور پر ماموں کانجن جاناپڑ گیا۔بس پھرکیاتھا ماموں کانجن کے نام پر وہ ایک بار پھربھڑک اٹھے۔ علی اعجاز نظامی اور افضل چوہدری نے بمشکل میری جان بچائی۔بات دوسری جانب چلی گئی ۔واپس افضل چوہدری کی جانب آتا ہوں۔
دیگرمقامی اخبارات کی طرح سنگ میل میں بھی ہفتہ وار تعطیل کا کوئی تصور نہیں تھا۔ افضل چوہدری کو ایک روز کسی تقریب میں شرکت کے لیے چھٹی کرناتھی انہوں نے مجھے بلاکر اپنی چھٹی سے آگاہ کیا اورساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ کل کاپی آپ نے بھیجنا ہوگی۔ میرے لیے یہ خبر پریشان کن تھی ۔اس سے پہلے مجھے نیوز ڈیسک پرکام کرنے کا تجربہ توتھا لیکن نیوزایڈیٹر کے فرائض انجام دینے کا کبھی موقع نہیں ملاتھا۔ 25 یا 26اکتوبر 1983ءکو افضل چوہدری نے چھٹی کی اورجانے سے پہلے مجھے لیڈ ،سپر لیڈ بنانے کے دو تین گر بتاگئے۔ مارشل لاءکازمانہ تھا،خبروں اور شہ سرخیوں کے معاملے میں ہم سرکاری ریڈیو اورٹی وی کی تقلیدہی کرتے تھے۔ افضل چوہدری نے کہاکہ آپ کو ریڈیو سے جو خبر سب سے اہم محسوس ہو، اس کی شہ سرخی بنادینا۔ اگر جنرل ضیاءکے بیان میں سے سرخی بنانی ہو تو اس میں بھی اہم ترین بات وہی ہوگی جو اس سے پہلے شہ سرخی کے طورپر شائع نہ ہوئی ہو۔ افضل چوہدری چھٹی پر چلے گئے اور میں نیوز ایڈیٹر کی سیٹ پربیٹھ گیا۔ اس روز میں نے شہ سرخی بنائی ”گریناڈا پر امریکی حملہ پسپا“۔ اگلے روز حسب معمول باقی اخبارات دیکھے تو سب کی شہ سرخی ہی نہیں کم وبیش الفاظ بھی یہی تھے۔ بس یہی وہ دن تھا جب میں نیوز ایڈیٹر بن گیا۔
میرے سنگ میل سے چلے جانے کے بعد افضل چوہدری بھی یہ ادارہ چھوڑ گئے اورانہوں نے اپنا کاروبار شروع کرلیا۔ لیکن جب تک وہ میرے رفیق کار رہے میری ان کے ساتھ خوب دوستی رہی۔ اور اسی زمانے میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ ڈاکٹر حنیف چوہدری کے صاحبزادے ہیں۔افضل چوہدری میرے دوست بھی تھے اور استاد بھی۔اوراسی لیے میں ڈاکٹر حنیف چوہدری کو اپنا دادا استاد بھی کہتا تھا۔ افضل چوہدری کا چند برس قبل انتقال ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے گلو گیر آواز کے ساتھ ان کے انتقال کی خبر دی تھی۔ کچھ عرصے بعد انہیں اپنے چھوٹے بیٹے کے انتقال کاصدمہ بھی جھیلنا پڑا۔چوہدری صاحب مجھ سے افضل مرحوم کے حوالے سے بھی بہت محبت کرتے تھے۔
12اکتوبر2014ءکو میں نے قیصر عباس صابر کے ہمراہ حنیف چوہدری صاحب کے کتب خانے میں کچھ وقت گزارا۔ انہوں نے مجھے بہت سی نایاب کتابیں دکھائیں ،بہت سے مسودے میرے حوالے کیے، ڈاکٹر صاحب نے خواجہ فرید کے حوالے سے اپنا نیا تحقیقی مقالہ بھی ہمیں دکھایا۔اس مقالے میں انہوں نے خواجہ فرید کے ان بہت سے اشعار کی نشاندہی کی تھی جوخواجہ صاحب نے اپنی کئی معاصرین سے مستعارلیے تھے ، یہ ایسے چونکا دینے والے انکشافات تھے جن کے بعد انہیں کچھ انتہاءپسندوں کی جانب سے شدید ردعمل کابھی سامناکرناپڑا۔ 2019ءمیں ہم نے جنوبی پنجاب لٹریری فیسٹیول منعقد کیا تو حنیف چوہدری صاحب کو وائس آف ساﺅتھ پنجاب کا اعزاز دیاگیا۔ یہ تقریب زکریایونیورسٹی میں منعقد ہوئی تھی ۔
10اکتوبر2019ءکو جب حنیف چوہدری صاحب کی ادبی بیٹھک میں سالگرہ منائی گئی تو انہوں نے اپنی زندگی کا احوال بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔انہیں کسی سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ملتان آمد کااحوال انہوں نے کچھ اس انداز میں سنایا کہ پورے ہال میں سناٹا طاری ہوگیا۔چوہدری صاحب کاکہناتھا
” جب میں ملتان ریلوے اسٹیشن پر اترا تو میں خالی ہاتھ تھا۔میں نے صرف بنیان اورتہبند پہن رکھاتھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مجھے کیاکرنا ہے اورکہاں جانا ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے باہر اکا دکا ٹانگے کھڑے تھے ،شدید سردی تھی جومیرے لیے ناقابل برداشت ہوچکی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کے باہر ایک تندوربجھ چکا تھا ،لیکن تندور کے ساتھ والی جگہ پر کچھ گرمائش تھی اور وہاں ایک کتا آرام کررہا تھا۔ مجھے ٹھٹھرتا ہوادیکھ کر وہ کتا اٹھ کر کسی اور جانب روانہ ہوگیا۔ میں اسی جگہ پر لیٹ گیا ،تندور کی گرمائش سے میرے بدن میں کچھ حرارت پیداہوئی ،کچھ سکون ملا اورمجھے زندگی کااحساس ہوا۔ گویا ملتان میں مجھے رہنے کے لیے ایک کتے نے اپنی جگہ فراہم کی تھی۔ “
ان حالات میں تنہا ملتان پہنچنے والے حنیف چوہدری نے بعدازاں اپنے والدین اور اہل خانہ کو کیسے تلاش کیا یہ ایک الگ کہانی ہے۔ لیکن انہوں نے جس طرح مسلسل محنت کے ذریعے اپنامقام بنایا اس کے ہم سب عینی شاہد ہیں۔ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔ ان کی زندگی انتھک محنت سے عبارت تھی۔ بہت سے اعزازات ان کے حصے میں آ ئے۔ جن میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے معمر ترین طالب علم کااعزاز بھی شامل ہے۔ زکریا یونیورسٹی کا سرائیکی ریسرچ سنٹر آج اگر اس خطے کی تاریخ وثقافت کی تحقیق کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد رکھنے والوں میں مرزا ابن حنیف اورشبیر حسن اختر کے ہمراہ حنیف چوہدری صاحب بھی شامل تھے۔ ان کے ساتھ محبت اوراحترام کارشتہ کم وبیش چارعشروں پرمحیط تھا۔ ہمیں ملتان کی تاریخ پر کام کے دوران جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہم ان سے رہنمائی لیتے تھے۔
چھے اکتوبر 2023ءکی صبح میں نے شاکر حسین شاکر، سجاد جہانیہ، اظہر سلیم مجوکہ، خورشید ملک،رب نوازسیال اورشہزاد عمران خان کے ہمراہ انہیں آخری سلام کیا۔اس روز ہم نے حنیف چوہدری کوہی نہیں ملتان کی چلتی پھرتی جیتی جاگتی تاریخ کوملتان کی اسی مٹی کے سپرد کردیا تھا جس سے وہ پیدائشی ملتانی نہ ہونے کے باوجود بے پناہ محبت کرتے تھے۔
فیس بک کمینٹ