جھوٹ سچ کی لڑائی میں ہم بے شک یہ کہتے رہیں کہ آخری فتح سچ کی ہوتی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک سچ کی فتح ہوتی ہے اس وقت تک بہت سا وقت مٹھی سے نکل چکا ہوتا ہے ، سچ بولنے والے اور اصول ، قانون اور ضابطوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے اگر آخر میں جیت بھی جائیں تو اس جیت کا کم از کم انہیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ وہ تو اپنے سنہری دنوں کو راکھ کر چکے ہوتے ہیں۔
جھوٹ اور ظلم کا سکہ ہمیشہ ڈٹ کے چلتا ہے اور جھوٹ کا کاروبار کرنے والے اپنے جھوٹ میں اتنے پختہ ہو چکے ہوتے ہیں کہ پھر انہیں اپنے کیے اور کہے پر شرمندگی بھی نہیں ہوتی۔اور کبھی کبھی سچ بولنے اور بے اصولی نہ کرنے والوں کو یہ احساس بھی ہونے لگتا ہے کہ شاید وہی غلطی پر ہیں اور اصل راستہ جھوٹ کا ہی ہے۔ جھوٹ اور فریب کی چکا چوند اور بالا دستی سب کو اپنا گرویدہ کر لیتی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سچ کے مقابلے میں جھوٹ کے پاس تسخیر کی طاقت زیادہ ہوتی ہے اور اسی لیے اس کے پیروکار بھی زیادہ نظر آتے ہیں۔ یہ تاثر اس لیے بھی پیدا ہوا کہ سچ کے مقابلے میں جھوٹ کا راستہ زیادہ آسان اور منافع بخش ہوتا ہے ، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ لوگ آسانی اور منافع ہمیشہ پسند کرتے ہیں۔
لوگوں کے سامنے سچ اور جھوٹ بولنے والوں کا انجام بھی تو موجود ہوتا ہے۔ سچ کو قتل ہونا ہوتا ہے ، تاریک راہوں کی موت سچ بولنے والوں کا مقدر ہوتی ہے ، وہ سولی چڑھتے ہیں ، زہر پیالہ پیتے ہیں ، پھانسی کا پھندہ چوم کر اپنے گلے میں ڈالتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اقتدار ، جاہ و جلال اور دنیا کی دولت جھوٹ کے قبضہ قدرت میں ہوتی ہے۔ سچ کے لئے دلاسہ ہو تا ہے کہ تم اگلے جہان میں سرخرو رہو گے لیکن دنیا والوں کو تو یہ جہان ہی نظر آ رہا ہوتا ہے نہ انہیں اگلے جہان میں کسی جھوٹے کے انجا م کی خبر ہوتی ہے نہ یہ معلوم ہوتا کہ وہاں سچ پر کون کون سی نوازشات ہوئیں۔ پھر لوگ اسی سوچ میں گم رہتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ میں سے سچا کون ہے ؟ سوال مشکل ضرور ہے لیکن ہمیں اس کا جواب تو تلاش کرنا چاہیئے۔۔
( بشکریہ : روزنامہ سب نیوز اسلام آباد )