صدیوں پہلے کی بات ہے ایک بھلاانسان غار میں کئی کئی دن گزرا کرتا تھا ۔ اچانک ایک روز ایک نورانی مخلوق ظاہر ہوئی اور کہا کہ ”پڑھ ، پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا “۔ یہ پہلا لفظ تھا اس عظیم کلام کا کہ جو رہتی دنیا تک انسانوں کو ہدایت کی روشنی سے منور کرتا رہے گا ۔ جس عظیم ہستی پر یہ کلا م نازل ہوا وہ حضرت محمد ﷺ تھے ۔جو روئے زمین پر آنے والے تما م انسانوں میں افضل ترین ہیں ۔ اور کلام کرنے والا اس کائنات کا پروردگار تھا ۔ ذرا غور کیجیے کہ اس کائنات کا خالق اس کا ئنات کے عظیم ترین انسان سے مخاطب ہے اور پروردگارنے سید الانبیاﷺ کو رسالت کے عظیم منصب پر فائز کرنا ہے اور اس کے عظیم الشان مرتبے پر فائزکرنے کےلئے جس لفظ کا انتخاب کیا جارہا ہے وہ ہے ”پڑھ“ ۔ اس امرسے دین برحق میں علم کی اہمیت کا اندازہ لگا لیجیے ۔ہجرت کا دوسرا سال تھا ۔ حق و باطل کا پہلا معرکہ ہو ا جسے تاریخ غزوہ بدر کے نام سے یاد کرتی ہے ۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے 70سے زائد کفار کو قیدی بنا لیاگیا ۔ کہا گیا جو قید ی 10 مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے وہ آزاد کردیا جائے گا ۔ آپ ﷺ نے اپنے منصب کے متعلق ارشاد فرمایا ”بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں “اور قران مجیدمیں لکھا ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے ۔تمہید طویل ہو گئی مگر بیان کرنا اس لئے منا سب تھا کہ چند روز پہلے بی ۔ایس انگلش کے خطیب حسین نامی طالب ِ علم نے صادق ایجرٹن کالج ،بہاولپور میں شعبہ انگلش سے تعلق رکھنے ایک استا د کو بیدردی سے قتل کر دیا ۔ اور جواز یہ فراہم کیا کہ وہ استاد اسلام کے بارے میں غلط باتیں کر تا تھا ۔ لہذا اس سے یہ سب برداشت نہیں ہو ا ور اس نے ایک صبح تیز دھار آلے کے پے درپے وار کر کے پروفیسر کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ یہ واقعہ جہاں انتہائی تکلیف دہ ، اذیت ناک ، اور ناقابلِ برداشت ہے وہاں ہم سے اس امر کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ ہم ان عوامل کا جائزہ لیں کہ جو اس تمام صورتحال کے محرکات ہیں ۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ ایک گروہ منظرِ عام پر آیا جس نے دین کے نام پر انتشار اور فساد پھیلایا ۔ جس نے بالعموم پوری قوم اور بالخصوص نوجوانوں کو اس امر کی ترغیب دی کہ اگر کوئی آپ کے معاشرتی ، اقتصادی ، معاشی ، قومی اور خاص کر مذہبی نظریات سے انحراف کرے تو آپ کا یہ بنیادی حق ہے کہ آپ اس کی روح اور جسم کا رشتہ منقطع کر دیں ۔ نوجوانوں میں اشتعال اور ہیجان پید ا کیا گیا کہ محض آپ ہی درست ہیں اور آپ کے سوا کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ درست بات کر سکے ۔ عدم برداشت کے فلسفے کو مذہب کی آڑ میں نوجوانوں کے ذہنوں میں داخل کیا گیا ۔ اس نوجوان کا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دین جو علم کے حصول کومرد و زن کے لئے لازم قرار دیتا ہے ، جو عالم کے قلم کی روشنائی کو شہید کے خون سے افضل قرار دیتا ہے اس طالب علم نے اسی دین کے نام پر اپنے استاد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔گویا عذرِ گناہ بدتر از گناہ والا معاملہ ہے ۔ دین کسی صورت اس امر کی اجازت نہیں دیتا کہ اگر آپ کو کسی کے نظریا ت سے اختلاف ہے تو آپ ایسا ردعمل اختیا ر کریں ۔ معاملہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے ایسے کئی گروہ اور افراد اس معاشرے میں مذہب کی غلط تشریح کرنے میں مصروف ہیں اور ان کے لئے سب سے آسا ن ہدف کچے ذہن کے حامل نوجوان ہوتے ہیں جو عقل و شعور کے بجائے جذبات کی رو میں بہک جا تے ہیں ۔اس سارے امر میں حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہو ا ہے کہ ریاست تو ایک طرف رہی جس کےلئے انسانوں کا لہو ارزاں ہی بہت ہے لیکن زیادہ دلخراش بات یہ ہے کہ سول سوسائٹی ، عوام ، میڈیا اور سب سے بڑ ھ کر اساتذہ تنظیموں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ گویا ایسے معصوم اور پرسکون ہیں کہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں ۔ بے حسی معاشرے کے رگ و ریشے میں سرایت کر چکی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو ا کہ سوشل میڈیا پر چند پوسٹیں کر دی گئیں ۔ اور اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر لگا دی گئی ۔اور بات ختم ۔ دل سوز واقعے سے بڑھ کہ جو بات اذیت نا ک ہے وہ معاشرے کی بے حسی ہے ۔ ایک استاد کو مار دیا جاتا ہے محض اس لئے کہ اس کی کلا س میں موجود 40 طالب علموں میں سے ایک کو اس کی ایک بات پسند نہیں آئی ۔ اور طالب ِ علم نے ایک بات بھی بیان نہیں کی کہ جس کی وجہ سے اس نے یہ قدم اٹھایا ۔جبکہ پروفیسر خالد حمید کے رفقا اور طالب علموں کی طرف سے جو آرا سامنے آئیں ہیں اس کے مطابق مقتول شریف، خوش اخلاق ، فرض شناس اور طلباو طالبات کا خیال رکھنے والے استاد تھے ۔ ایک بہت بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ طالبِ علم دو سال سے اس ادارے میں زیرِ تعلیم ہے اور پروفیسر خالد حمید صاحب نے اس کی کلاس کو پانچویں سمسٹر سے پڑھانا شروع کیا اور ابھی ان کو محض اس کی کلا س کو پڑھاتے دو ماہ ہی ہوئے تھے ۔ اگر ان کے خیالات ایسے تھے تو کالج کے بقیہ کلا سز کی طرف سے کوئی بات کیوں سامنے نہیں آئی اور اس طالب ِ علم کی کلاس سے ہی کسی اور نے اس کی ہاں میں ہاں کیوں نہیں ملائی ۔یہ معاملہ ایک بیماراور شدت پسندی کے حامل ذہن کا ہے ۔ بظاہر گناہگار خطیب حسین نظر آرہا ہے مگر ایسا نہیں ہے ۔درحقیقت گناہگار وہ قوتیں ہیں جو ایسے نوجواں کی ذہن سازی کرتی ہیں اور وہ نا صرف موجود ہیں بلکہ کئی اور نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہیں اگر ایسی قوتوں اور گروہوں کا قلع قمع نہ کیا گیا تو پھر ہمارے ادارے ، ہماری سٹرکیں ، اور ہماری شاہراہیں قتل گاہوں میں تبدیل ہو جائیں گی
فیس بک کمینٹ