ہفتہ کے روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دورہ لاہور کے دوران جو باتیں کی ہیں ان میں سے کچھ کا اعلان تو آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کیا گیا ہے لیکن کچھ باتوں کے بارے میں نہ تو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کوئی معلومات ملی ہیں اور نہ ہی مین اسٹریم میڈیا پر اس بارے میں رپورٹنگ ہوئی ہے۔ حالانکہ جنرل باجوہ کی یہ باتیں موجودہ ملکی سیاسی بحران سے متعلق ہیں اور سیاست میں فوج کے کردار کی نشاندہی کرتی ہیں۔
آرمی چیف نے دورہ کا آغاز ایک جھگڑے میں زخمی ہونے والے میجر حارث کی عیادت سے کیا اور کہا کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ میجر حارث پر حملہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا مل کررہے گی۔ یوں تو یہ ایک معمول کا بیان ہے لیکن فوج کے سربراہ کو ایک ایسے موقع پر یہ بیان دینے سے گریز کرنا چاہئے تھا جبکہ ملک میں شدید سیاسی بحران کی کیفیت ہے اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم عوامی رابطہ مہم کے ذریعے ملک کی موجودہ حکومت اور نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ عمران خان نے کراچی کے جلسہ میں پاک فوج کے حق میں نعرے لگائے اور کہا کہ ان کی فوج سے لڑائی نہیں ہے لیکن تحریک انصاف کے حامی اس بات کو چھپا تے بھی نہیں ہیں کہ ان کے خیال میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ فوج کے سربراہ ان سے مایوس ہوگئے تھے۔ اور ان کی حوصلہ افزائی ہی کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے آپس میں اتفاق کیا، عمران خان کی حلیف جماعتوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور تحریک انصاف کی صفوں میں انتشار نمایاں ہونے لگا۔ اس پس منظر میں جب ایک عام سول تنازعہ میں زخمی ہونے والے کسی فوجی افسر کی عیادت کے دوران آرمی چیف قانون کی بالادستی کی بات کریں گے تو یہی تاثر عام ہوگا کہ فوجی اس ملک کے عام شہری نہیں ہیں۔ کسی معاملہ میں خواہ وہ ٹریفک حادثہ پر ہونے والا تنازعہ ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی فوجی ملوث ہوگا تو آرمی چیف کی سربراہی میں فوج کا پورا ادارہ اس کے پیچھے کھڑا ہوگا۔ اس حادثہ میں پنجاب اسمبلی کے دو ارکان اور ان کے گارڈز پہلے ہی گرفتار کئے جاچکے ہیں تاہم کسی بھی معاملہ کی تفتیش مکمل ہونے سے پہلے یہ قیاس کرلینا ملکی قانون اور نظام عدل کی توہین کے مترادف ہوگا کہ سانحہ میں ملوث سیاست دان ہی قصور وار تھے اور فوجی میجر بالکل بے قصور اور معصوم تھا۔ اس معاملہ کا فیصلہ بہر حال عدالت میں پیش کئے گئے شواہد اور گواہوں کی روشنی میں ہی ہونا چاہئے۔ اسی لئے آرمی چیف ضرور اپنے ماتحت افسر کی مزاج پرسی کریں لیکن اس کی حمایت میں قانون کی بالادستی کا اعلان کرنے اور’ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ جیسے بیانات دینے سے گریز بہتر ہوتا۔ یا پھر وہ اس بات کا اضافہ کرتے کہ اگر اس سانحہ میں ملوث فوجی افسر بھی قصور وار پایا گیا تو اسے بھی قرار واقعی سزا ملے گی۔
لاہور میں قیام کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ نے گیریزن کا دورہ بھی کیا اور دو مواقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ایک تقریب میں انہوں نے فوجی افسروں سے خطاب کیا جس کے بارے میں آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز جاری کی ہے۔ اس کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ’پروپیگنڈا اور بےبنیاد معلومات قومی سالمیت کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ اس قسم کی افواہوں اور قیاس آرائیوں کی روک تھام کے لئے متحدہ اور مؤثر رد عمل ضروری ہے۔ فوج عوام سے طاقت حاصل کرتی ہے ،اس لئے عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جائے گی۔ سرکش عناصر بہت عرصہ سے اس قسم کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں لیکن وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے‘۔ جنرل باجوہ فوج کے لئے عوامی حمایت کا ذکر پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور ان کا مؤقف رہا ہے کہ فوج اسی وقت محاذ پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے جب اسے عوام کی مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہو۔ اسی لئے ملک میں عام طور سے اس نقطہ نظر کا اظہار بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ فوج کو ملکی سیاسی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے تاکہ ملکی سرحدوں کے محافظ کے طور پر فوج کے کردار کے بارے میں شبہات پیدا نہ ہوں اور عوام اور فوج کے درمیان احترام و محبت کا رشتہ برقرار رہے۔
یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملکی سیاست میں فوج کے زیر نگران اداروں کی مداخلت ، اہم سیاسی و خارجہ معاملات میں فوجی قیادت کی دلچسپی اور سیاسی حکومت کے ذریعے اپنی حکمت عملی پر عمل کروانے کی کوششوں کی وجہ سے متعدد الجھنیں پیدا ہوئی ہیں۔ جسے پروپیگنڈا یا فوج کے خلاف بے بنیاد معلومات کہا جاتا ہے، درحقیقت ان کا سرا کہیں نہ کہیں کسی سطح پرسیاست میں فوج کی دلچسپی یا مداخلت سے جا ملتا ہے۔ اس وقت حال ہی میں اقتدار سے محروم ہونے والے عمران خان اس حوالے سے بالواسطہ الزامات عائد کررہے ہیں یا ان کی پارٹی کا پبلک ریلشننگ شعبہ فوجی قیادت کے خلاف خبریں عام کررہا ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ سیاسی عناصر خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے فوج کو اپنا مدمقابل بنا کر پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی بات بہتر طریقے سے عوام تک پہنچے یا ان کے لئے ہمدردی پیدا ہو۔ سیاسی لیڈر اور پارٹیاں چونکہ عوامی حمایت سے اقتدار حاصل کرسکتی ہیں ، اس لئے ان کے لئے کسی بھی قیمت پر عوام کو رجھانا بے حد اہم ہوتا ہے ۔ تاہم اگر آج عمران خان ایسی الزام تراشی کررہے ہیں جو کل تک نواز شریف اور مریم نواز کی طرف سے سننے کو ملتی تھی تو عوام خواہ ان لیڈروں کی باتوں پر غور نہ بھی کریں لیکن انہیں یہ شبہ تو ضرور پیدا ہوگا کہ کہیں نہ کہیں فوج کا کوئی کردار تو ہے کہ دونوں طرف کے سیاست دان فوج کو ہی مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔ یہ کوئی خوشگوار صورت حال نہیں ہے تاہم اب بھی وقت ہے کہ اس کا درست علاج کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ ملک میں وقوع پذیر ہونے والی ہر تبدیلی فوج ہی کی ایما سے ہوتی ہے عسکری قیادت کو واضح اور شفاف حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہوگی تاکہ دہائیوں سے فوج کے سیاسی کردار یا اس بارے میں پیدا ہونے والے تصورات کو ختم کرنے کے کام کا آغاز ہوسکے۔
یہ بات بین السطور کے علاوہ کسی حد تک کھل کر کی جانے لگی ہے کہ فوج کے کچھ عناصر عمران خان کی حکومت کو بچانے کے لئے سرگرم تھے لیکن جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں فوج کا یہی فیصلہ تھا کہ موجودہ سیاسی بحران میں اپوزیشن اور حکومت کو سیاسی طور سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ اسی لئے اسٹبلشمنٹ کے زیر اثر رہنے والی چھوٹی سیاسی پارٹیوں نے آخری لمحوں میں تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ نے کا فیصلہ کیا اور تحریک عدم اعتماد کے لئے اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوگئی۔ تاہم یہ بات ابھی تک واضح طور سے سامنے نہیں آسکی کہ گزشتہ سال اکتوبر کے آغاز میں ایسے کون سے حالات پیدا ہوئے تھے کہ عمران خان نے آرمی چیف کی طرف سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تبدیلی کو منظور کرنا اپنے اختیار کو براہ راست چیلنج سمجھا تھا۔ اسی لئے نئے ڈی آئی ایس آئی کی تقرری کے لئے وزیر اعظم ہاؤس میں انٹرویو اور غو ر و خوض کا ایک طویل سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد بھی اگرچہ آرمی چیف کے تجویز کردہ جنرل کو ہی آئی ایس آئی کا سربراہ بنایا گیا لیکن یہ تقرری نومبر کے آخر تک مؤخر کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس مرحلہ سے ہی فوج اور عمران خان کے درمیان تنازعہ کا آغاز ہؤا تھا۔فوج کو یہ اصول طے کرنا ہوگا کہ کسی صورت ملکی سیاسی معاملات یا ایک منتخب وزیر اعظم کے جائز اختیارات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اگر فوج بطور ادارہ یہ فیصلہ نہیں کرے گا تو مستقبل میں بھی یہ تکلیف دہ صورت حال دیکھنے میں آسکتی ہے کہ ذاتی پسند یا ناپسند کی وجہ سے کوئی ایک افسر یا فوج کے کچھ عناصر کسی خاص حکومت کی حمایت کرنا ضروری سمجھنے لگیں۔ حال ہی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو معاملات دیکھنے یا سننے میں آئے، ان میں عمران حکومت پر فوج میں ہی دو آرا کی خبریں اسی لئے سامنے آتی رہی ہیں کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہے۔ یہ مداخلت براہ راست بھی ہوئی جس کے تحت چار مرتبہ ملک پر فوجی حکمران مسلط ہوئے لیکن 2008 سے بالواسطہ طور سے سول حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ اسی رویہ کی وجہ سے ملکی سیاست میں ہائیبرڈ نظام کا تجربہ کیا گیا اور 2018 میں عمران خان کو انتخاب جیتنے اور حکومت سازی میں تعاون فراہم ہؤا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہفتہ کے روز لاہور گیریزن میں ریٹائر فوجی افسروں سے بات چیت کرتے ہوئے اس جانب اشارہ بھی کیا۔ اس خطاب اور مکالمہ کے بارے میں آئی ایس پی آر نے کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ یہ غیررسمی ملاقات تھی جس میں آرمی چیف نے سابقہ حکومت کو سیاسی بحران میں کمک فراہم نہ کرنے کی وجوہات پر روشنی ڈالی اور اس حوالے سے ریٹائرڈ فوجی افسروں کے سوالات کے جوابات دیے۔ اس ملاقات کے بارے میں جو خبریں سوشل میڈیا پر کثرت سے پھیلائی گئی ہیں ان میں جنرل باجوہ کا یہ اعلان بھی شامل ہے کہ ’فوج سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی ۔ عمران خان اگر آئیندہ انتخابات میں کامیاب ہوگئے تو فوج کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘۔ آرمی چیف سے منسوب اس بیان سے دو باتیں اخذ کی جارہی ہیں ایک یہ کہ فوج اعتراف کررہی ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمہ میں کردار ادا کیا گیا تھا تاہم اب سابق وزیر اعظم کی گرمجوشی اور مقبولیت دیکھ کر جنرل باجوہ تحریک انصاف کو مفاہمت کا پیغام بھیج رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ فوج واضح کررہی ہے کہ بعض سیاسی معاملات اور فیصلوں میں اسے کوئی نہ کوئی پوزیشن لینا پڑتی ہے۔ اصولی طور سے کسی آرمی چیف کو ملک میں سیاسی تبدیلی کے حوالے سے کسی قسم کی گفتگو نہیں کرنی چاہئے ۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ فوج ہر اس حکومت کو قبول کرنے کی پابند ہے جسے انتخابات میں عوام منتخب کرلیں ۔ پھر اس کی تکرار کیوں ضروری سمجھی جاتی ہے؟
ملک میں آنے والی حالیہ تبدیلی اگرچہ ایک انتخابی و آئینی عمل کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئی ہے لیکن اس کے بارے میں شبہات راسخ ہورہے ہیں۔ عمران خان بین الاقوامی سازش کا حوالہ دے کر عوام کو بتا رہے ہیں کہ مقامی کرداروں کو وہ خود پہچان لیں۔ یہ صورت حال ملکی سیاسی و عسکری قیادت کے لئے یکساں طور سے پریشان کن ہونی چاہئے۔ ان شبہات کو ختم کرنے کے لئے فوج کے سیاسی کردار کا مکمل خاتمہ عسکری اور سیاسی قیادت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ