لوگ تو خوفزدہ ہو کر کپکپاتے ہوئے گھروں میں دبک جاتے ہیں لیکن دھند ہمیں بہت اچھی لگتی ہے۔جیکٹ پہن کر مونگ پھلیاں جیب میں بھر یں اوررات کے پچھلے پہر کسی ویران سڑک پر نکل جائیں (اور اس موسم میں ہر سڑک کم وبیش ویران ہی ملتی ہے )تو دھند آپ سے ہم کلام ہوتی ہے۔اور اگر ایسے میں سرد ہوا بھی ساتھ چل رہی ہو تو دھند کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ہم تو مایوس ہی ہو چکے تھے خطرہ تھا کہ کہیں دسمبر کی طرح جنوری بھی کہرے میں لپٹے بغیر روشن روشن ہی نہ گزر جائے۔یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ سردی آئے بغیر ہی رخصت ہو جائے۔اول تو ہمارے ہاں سردی آتی ہی نہیں اور اگر آبھی جائے تو ہم اس سے لطف لینے کی بجائے اس سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔زندگی کی تلخیوں میں ہم تو موسم سے لطف اندوزہونا بھی بھول بیٹھے ہیں۔ گرمیوں سے جھلسے ہوئے ملتانیوں کو تو سردی کا یوں بھی بہت انتظار ہوتا ہے۔اور انتظار اس لئے ہوتا ہے کہ یہ مختصر سا موسم ہی تو ہمیں کانپنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ورنہ تو ہم محکوموں کی ساری عمرایک ہی طرح سے کپکپاتے گزر رہی ہے۔کسی نے وہ مشہورِ زمانہ طعنہ بھی دیا کہ تم ملتانی ہو کر بھی سردی کے منتظر ہو کیا تم نے یہ نہیں سن رکھا کہ ملتان والے تو دوزخ میں لحاف لے کر جائیں گے ۔ہم نے اس غیر ملتانی کی گفتگو نظر انداز کی اور ایک بار پھر دھند اور سردی کا انتظار شروع کر دیا۔ ہم سردی سے کم و بیش مایوس ہو ہی چکے تھے کہ دسمبر جاتے جاتے ہمارے لئے دھند کا تحفہ لے آیا۔اب ہم ہیں مونگ پھلی ہے رات کی تاریکی ہے اور ملتان کی سڑکیں ہیں ۔
یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ ہم سال بھر تو دوستوں کے ساتھ انجمن آرا ئی کرتے ہیں اورمحفل آباد کرنے کے لئے احباب کو شہر کے کونوں کھدروں سے بھی تلاش کر لاتے ہیں لیکن دھند ہمیں خود غرض بنا دیتی ہے۔اس موسم میں ہم گھر سے تنہا نکلتے ہیں ۔اس لئے تنہا نکلتے ہیں کہ یہ واحد موسم ہے جو ہمیں تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہنے دیتا۔کوئی بھی ساتھ نہیں ہوتا لیکن پھر بھی کوئی ساتھ ضرور ہوتا ہے اور اس طرح ساتھ ہوتا ہے کہ اس کے قدموں کی چاپ تک سنائی دیتی ہے۔بس یہ احساسِ رفاقت ہی ہے جو اس موسم کو اور اس موسم کے ہر منظر کو خوبصورت بناتا ہے ۔عجیب پاگل کر دینے والا موسم ہے کہ جس میں سارے منظر دھندلا کر ایک منظر بن جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک منظر اور ایسے ہی ایک موسم میں ہم نے کہا تھا
سڑکوں پر اپنے آپ سے ہوتے ہیں ہم کلام
چلئے ہمارا شہر میں اک آشنا تو ہے
دھندلایا ہوا موسم ہمیں کیوں اچھا لگتا ہے ؟ایک روز ہم نے اس پر بہت غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اور بہت سی باتوں کے علاوہ ہمیں دھنداس لئے بھی اچھی لگتی ہے کہ ہم بحیثیت قوم دھندلائے ہوئے موسم کے عادی ہو چکے ہیں۔ہمیں عادت ہوچکی ہے کہ اگر کچھ نہ بھی نظر آ رہا ہو تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ہمیں نظر آ رہا ہے اور بہت واضح نظر آرہا ہے۔ہم دھند میں راستے سے بھٹک جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم خود کو بھٹکا ہوا محسوس نہیں کرتے۔ہم غلط راستے پر بھی بہت اعتماد کے ساتھ چلتے ہیں اور اسے درست سمجھ کر چلتے ہیں۔راستے میں کوئی بھلا مانس اگر بتا بھی دے کہ میاں تم غلط راستے پر گامزن ہو تو ہم اس کی بات پر یقین نہیں کرتے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر ہمیں گمراہ کر رہا ہے اور یہ کہ اسے خودبھی دھند میں راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ جیسے ہمیں دھند میں تنہا سڑک پر چلتے ہوئے تنہائی کا احساس نہیں ہوتا اور ہم ”یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے ”والی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں اسی طرح بحیثیت قوم بھی ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تنہا سفر کرنے کے باوجود خود کو تنہا تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ۔ہم ہمیشہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے دوست ہمارے ساتھ ہیں اور بعد میں یاد آتا ہے کہ اس سفر پر تو ہم دوستوں کی رضامندی کے بغیراور انہیں ساتھ لئے بغیر روانہ ہوئے تھے۔پھر جب بھٹکتے بھٹکتے ہم بہت دور جا نکلتے ہیں تو ہمیں اجنبی ماحول میں جا کر معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو دھند میں بہت دور نکل آئے ہیں ۔پھر ہم واپسی کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور واپسی کا راستہ بہت اذیت ناک ہوتا ہے۔اس وقت تک ہمارے پاوں تھکن سے چور ہو چکے ہوتے ہیں اور جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم دھند میں بہت دور آگئے ہیں اور ہمیں اب اتنا ہی سفر واپسی کا کرنا ہو گا تو تھکے ہارے مسافر کے پاوں بوجھل بھی ہو جاتے ہیں۔اس دوران راستے میں راستہ بتانے والے بھی بہت ملتے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ ایک بار ہم دوستوں کے ساتھ ہم سفر تھے کہ راستے میں اچانک دھند نے آلیا۔یہ دھنددورانِ سفر اچانک حملہ آور ہو تو بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔راہ میں ایک صاحب خضر کی صورت دکھائی دئے۔ہم سے ہماری منزل دریافت کی اور بولے آئیں مجھے بھی اسی جانب جانا میں آپ کو راستہ بتا دیتا ہوں۔وہ ہمارے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھ گئے اور ایک طویل سفر کے بعد یہ کہہ کے گاڑی سے اتر گئے کہ آپ نے جس جگہ پہنچنا ہے وہ اب قریب ہی ہے۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تو ہمیں اور بھی بھٹکا گئے ہیں اور صرف اس لئے بھٹکا گئے ہیں کہ انہیں ہمیں راہ دکھلانے کے بہانے خود منزل تک پہنچنا تھا۔وطنِ عزیز میں دھند کے مسافروں کے ساتھ اکثر یہی ہوا کہ ہم نے جسے بھی راہبر جانا جس سے بھی راستہ دریافت کیا وہ خود بھٹکا ہوا مسافر نکلا اور ہمیں مزید بھٹکا کے چلا گیا۔اکثر اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ دھند کا سفر دھند ختم ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوتا۔ہم اس دوران اس قدر بھٹک چکے ہوتے ہیں کہ واپسی کا راستہ تلاش کرنے میں ہمیں بہت دیر ہو جاتی ہے اور جب منزل سامنے نظر آنے لگتی ہے اور ہم مطمئن ہونے لگتے ہیں تو دھند ایک بار پھر ہمیں اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔سو بہتر یہی ہے کہ آپ راستے کی تلاش جاری رکھیں لیکن اگر راستہ نہیں ملتا تو ہماری طرح اسی دھند سے لطف کشید کرنے کی کوشش کیجئے۔
( بشکریہ : سب نیوز اسلام آباد )
فیس بک کمینٹ