دوستو! میں لکھاری نہیں…. مگر اُردو ادب کا پجاری ہوں۔ دیار یار جیسے دل رُبا دیار غیر میں یادوں کی اُتھل پتھل زیادہ شدت سے ہوتی رہتی ہے۔ کام کاج کی تھکن کے بعد یادوں کی تھکن کا بوجھ تنہا نہیں ہونے دیتا۔ ساہیوال یاد آتا ہے……. آستانہ پنڈی ،کبھی داتا نگری…. تو کبھی شہر ملتان کے چمن اُردو کی کلیاں کیاریاں…. اور پھول دار یاریاں…. آج پھر یادوں کی بازگشت نے دل کے جزیرے پہ دستک دی تو اپنی بے حد سویٹ۔ قابل
احترام میڈم رُوبینہ ترین کیلئے احساسات کو قلمبند کرنے کا تحرک ہوا۔
میرے ابّا…. میرے پیارے ابّا۔ نیارے ابّا…. میرے بیلی ابّا وہ سب والدین کی طرح انگریزی سے مرعوب تھے۔ اس دور میں اپنی علمی کجی و کمی کو پوری لگن سے اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر دُور کرنے کے طلبگار تھے۔ ماضی پہ انگریزی طرزِ معاشرت کی پرچھائیاں زبان و بیان اور لباس پر چھاپ لگا چکی تھیں۔ لوگ انگریزی زبان کو لہجہ بگاڑ کر بولتے تو کئی مضحکہ خیزیاں جنم لیتیں۔
میرے ابّا بھی چاہتے تھے کہ فر فر پنجابی بولنے کی مہارت کیساتھ انگریزی زبان بھی 100 کی رفتار سے بولوں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ سردیوں کی راتوں میں مونگ پھلی کھاتے رضائیوں میں گھسے Willims Words Worth کی نظم Daffodils کو بالو بتیاں وے ساکوں مارو سنگلاں نال…. کے ردھم میں گاتے تو ابّا ہماری رمزوں پر مسکراتے رہ جاتے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں بی اے میں نے انگلش لٹریچر کا مضمون رکھا تھا۔اور پھر میں کہیں رکھ کر بھول گیا تھا۔ میرے اُردو کے اُستاد مظفر وڑائچ صاحب نے کلام اقبال کے ذریعے قومی سیاسی ملی شاعری اور غالب کی شوخ اور پُرمزاح شاعری اتنی لگن سے پڑھائی کہ میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ میں اب ایم اے اُردو ہی کروں گا۔ انہوں نے ہی شعبہ اُردوملتان کی راہ دکھلائی۔ اب جبکہ میں قومی ائر لائن میں ملازم ہوں۔ ہر طرح کی پرواز کا مزا چکھ چکا ہوں مگرHis first Flightکی طرح میری پہلی یاد گار اُڑان ساہیول سے ملتان زکریا یونیورسٹی کا شعبہ اُردو ہی ہے۔
نئی دُنیا نئے مناظر، محبت، احترام، اپنا پن،
رنگ و نور…. ہماری محترم رُوبینہ اک نگینہ…. چمکتا دمکتا جھلمل کرتا…. خوش بیانی خوش لباسی، خوش مزاجی، ٹھہراﺅ میڈم ہمیں تاریخ اُردو ادب میں حصہ نثر پڑھاتی تھیں۔ تحمل ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ ایک بھرپور لیکچر، مدلل، معلومات کا خزانہ، ترتیب اور تسلسل کوئی پہلو تشنہ نہ رہتا۔ اور رنگِ شخصیت…. واللہ واللہ سبحان اللہ….
تم جس خواب میں آنکھیں کھولو اس کا رُوپ امر
تم جس رنگ کے کپڑے پہنو وہ موسم کا رنگ
تم جس پھول کو ہنس کر دیکھو کبھی نہ وہ مرجھائے
تم جس حرف پہ انگلی رکھ دو وہ روشن ہوجائے۔
آپ جانتے ہیں کہ میں لاپرواہ طالبعلم تھا۔ رَٹا اور لفاظی اور روکھا پن میرے طبیت کے خلاف تھا۔
لہٰذا ”علم“ کا بوجھ تو میں اُٹھا نہ سکا لیکن ادب میری میڈم نے اس طرح سکھلایا کہ آج تک اساتذہ اور دوستوں میں ادب کا ہی ”باادب“رشتہ آج تک قائم و دائم ہے۔ نرسری کلاس کے بعد Female Teacher سے پڑھنا منفرد تجربہ تھا میڈم کا رویہ بھی ہموار تھا۔۰ نہ غصہ، نہ خفگی، نہ ڈانٹ نہ ڈپٹ۔
ایک دن رانا شہباز اور سجاد کے ہمراہ میڈم کے آفس میں بیٹھے تھے۔ میڈم کے اِرد گرد 2 تتلیاں سی منڈلاتی رہتی تھیں۔ پیاری پیاری گول مٹول ان دنوں میرے نجومی پن کے چرچے تھے۔ کچھ شد بُد بھی تھی۔ میں نے میڈم جی کے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر بے ساختہ کہا۔ ”میڈم جی اللہ آپ کو ایک ”کاکے“ سے نوازے گا۔ میرے اس جملے سے میڈم کا گلابی چہرہ اور گلناری گلناری ہوگیا۔
ایسی خوشی اور شادمانی جو صرف ایک ماں کی ممتا کا ہی نصیبا ہے۔ میں نے اپنی اُستاد کے چہرے پہ حقیقی خوشی کو دیکھ کر اللہ میاں سے دُعا کی کہ نجومی پن جائے بھاڑ میں…. اے میرے مالک میری اُستاد کی حقیقی خوشی اور میری سچی دُعا کا بھرم رکھنا۔ ڈگری کی وصولی کیلئے 2-3 سال بعد شعبہ جانا ہوا۔ تو کوریڈور میں ہی میڈم سے ملاقات ہوگئی۔ مجھے دیکھتے ہی کہا۔ نذر بھٹی آﺅ۔ آﺅ۔ کیسے ہو۔ اللہ نے تمہاری دُعا سن لی۔ میں زیر لبLay Dass کہتا ہی رہ گیا۔
شعبہ اُردو ملتان کی تعلیمی ادّبی تحقیقی خدمات میں ایک معتبر مقام پہ فائض ہیں۔ بے شمار طالب علموں نے ان سے اکتساب فیض حاصل کیا۔ میں تو لیکچر کلاس سے نکلنے کے بعد ہی بھول جاتا…. آج کیا سناﺅں آپ کو دراصل میں بے جان لفظوں اور غیر محسوس تراکیب کو اتنا ”محسوس“ نہیں کرتا تھا۔ بس جیو اور جینے دُو کا علم سیکھ پایا۔ میرے نزدیک Get Togather اور ہم نصابی سرگرمیاں بھی علم سکھاتی ہیں۔ معاشرے میں Social Adjustment کا قائل ہوں۔ میری میڈم ہمیشہ مثبت رہتی اور مثبت انداز میں ہمیں مثبت رہنا سکھا گئیں…. اس لیے ہمیشہ Positive رہتاہوں اور O, Negative ہونے سے ”ذرا“ ڈرتا ہوں۔
خوشی گفتار تحمل، برداشت اور باوقار خاموشی یہ ہے میری میڈم کی پہچان! ۔
ان کی تخلیقی کی فہرست بہت طویل اور حیران کن ہے! ملاحظہ کیجئے۔
(1)ملتان کی ادبی اور تہذیبی زندگی میں صوفیاءکرام کا حصہ (2)تحسین شعر (3)تاریخ ادبیاتِ ملتان (4)اظہارِ خیال (5)ملتان میں لسانی تشکیلات کا عمل اور دوسرے مضامین (6)خطبہ اقبالیات (7)خواجہ فرید سیمینار کے منتخب مقالات (8)اصطلاحات تعصوف (9)خواجہ فرید فن و شخصیت۔
میری لائبریری میں ان کی 2کتابیں موجود ہیں۔ اور میری انتہائی پسندیدہ کتاب ”ملتان کی تہذیبی زندگی میں صوفیائے کرام کا مقام ہے…. جی چاہتا ہے کہ ان کی باقی کتابیں بھی زیر مطالعہ لاﺅں…. پر میں تو ویسے بھی ان کا معصوم شاگرد ہوں/ میری معصومیت کا اعتراف میرے عظیم اُستاد محترم ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے بھی کہا…. معصوم نہ ہوتا تو آج زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں ڈاکٹرنذر بھٹی ہوتا….
ایئر پورٹ پر میڈم سے ملاقات کئی بار ملاقات ہوئی۔ اپنے پیارے سے ”پپو سے نواسے“ کیساتھ اُنہیں دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے…. دل چاہتا ہے۔ ہمارے قاضی صاحب جلد از جلد اولڈ سٹوڈنٹ تقریب کا اہتمام کریں۔ توتجدید ملاقات سے اپنی زندگی کے خزینے کو اور سنہرا اور چمکدار کرسکوں…. اب جبکہ میرے بچے یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیمی مدارج میں داخلے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ میری دُعا ہے کہ خدا اُنہیں بھی میڈم رُوبینہ جیسے مقدم اور قیمتی اُساتذہ سے اکتساب فیض کا موقع میسر آئے تاکہ وہ زندگی کے معنی و مفہوم کو زیادہ خوبصورتی سے پائیں….