مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا کہ ” کشمیر زمین پر جنت ہے “ ۔۔اور آج یہ زمینی جنت بھی اس حسین چہرے کی مانند کسی بد نظر کی زد میں ہے جس کے بارے میں عالم گیر خان کیف کے قلم نے یوں لکھا تھا کہ
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
کشمیر جنت نظیر اس وقت امتحان کی زد میں ہے خواہ وہ بد نظری کا ہو یا اعلیٰ ظرفی کا ۔۔۔سرحد کے ۔اُس طرف آتما ؤ ں کی زمین مشکلات بڑھا رہی ہے ۔اور اِس طرف خود اپنے آسماں کی نظر بھی مہربان نہیں ہے ۔۔۔کیوں ہورہا ہے ایسا۔؟؟؟؟؟کیا قصور ہے بے بس کشمیریوں کا۔۔۔قدرتی آفات کی وجوہات کچھ بھی ہوں کسی کے تہ خاک تڑپنے سے زمین ہل جائے یا کسی پتھر وجود کے ٹوٹنے سے دہل جائے ۔۔۔سیاست دانوں کی بداعمالیوں سے چٹخ جائے یا عوامی بدکرداریوں سے شق ہوجائے۔۔۔کسی وینا کے جینز پہننے سے زلزلہ آجائے ۔۔۔یا کسی رند کے جام لٹانے پر پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔۔کسی مظلوم کی آہ سے فرش ہل جائے یا کسی فردوس کے جہنمی بیان سے دوزخ کا دروازہ کھل جائے ۔۔۔۔زمینی اور سائنسی حقائق ۔۔۔۔معاشی بحران کے ساتھ معاشرتی امتحان کے نتائج بھی سامنے لاتے ہیں
ستمبر میں اکتوبر کے زلزلے کی یاد تازہ کروانے والے ہولناک جھٹکے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر سوال کر رہے ہیں کہ
ملبے سے نکالے تھے کئی پھول کئی خواب ۔۔۔۔۔۔۔۔اب یاد نہیں کس کو کہاں دفن کیا تھا ۔۔۔۔وقت کے رخ پر تباہی تباہی کیوں پکارے جارہے ہو۔۔۔۔۔۔اپنی قوم سے محبت کرنا کب سیکھو گے ؟؟؟ورنہ زمین یونہی سینہ کوبی کرتی رہے گی اور معصوم لوگ گھن کی طرح پستے رہیں گے۔۔۔
آز اد کشمیر کی میر پور ڈویژن کشمیر کے انتہائی جنوب اور دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً125 کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم منگلا ڈیم اسی ضلع میں ہے ۔۔میرپور آزاد کشمیر کا سب سے بڑا خوب صورت مناظر سے سجا ہوا ایک صاف ستھرا شہر ہے جسےارض کشمیر کا ” سٹی آف پیس “ اور ”لٹل لندن “ بھی کہا جاتا ہے ۔۔سطح سمندر سے چارسو ساٹھ فٹ بلند، تحصیل دینہ کے ذریعے یہ لاہور پشاور مرکزی شاہراہ سے منسلک ہے۔
پرانے شہر کے آثار سردیوں کے موسم میں منگلا جھیل کے پانی کی سطح کم ہوتےہوئے نظر آتے ہیں ۔۔۔مندر۔۔۔دربار باولی اور پرانے کھنڈر ۔۔۔مگر جدید میرپور منگلا جھیل کے کنارے اپنی تمام تر خاموش رعنائیوں سمیت ترقی کی منازل طے کررہا ہے ۔۔یہاں محی الدین میڈیکل کالج ۔۔Nums اور MIUیونیورسٹی جو اسلام آباد یونیورسٹی آف ہائیر ایجوکیشن سے تسلیم شدہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج ۔۔۔تمام بڑے پرائیویٹ سکول کالجز کے سسٹم اور خوب صورت مساجد ۔۔۔سبزہ زار ۔۔۔صاف ستھرے رہائشی علاقے اپنے شہریوں کو امن اور سکون کا پیغام دیتے ہوئے صوفی مزاج ۔۔۔مہمان نواز اور خاموش طبع نفیس لوگ ۔۔۔میں 2017 ء میں میرپور کے میڈیکل کالجز کا وہ خوب صورت تعلیمی وتفریحی سفر کیسے فراموش کر سکتی ہوں جب مجھے یہ احساس ہوا تھا اگر شہری خود اپنے مدد آپ کے تحت اپنے شہر کو صاف ستھرا پھولوں سے بھرا رکھنا چاہیں ۔۔۔تعلیم اور ترقی کے دل و جان سے خواہاں ہوں تو اس جذبہ تعمیر کے سامنے سب سرکاری اقدامات کوئی خاص معنی نہیں رکھتے۔
اور یہی جذبہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب چوبیس ستمبر 2019 کو شام ہونے کا احساس لیے فون کی گھنٹی چیختی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔اتفاق سے ایک روز پہلے نیچرل ڈیزاسٹر کے حوالے سے پیپر پر ڈسکشن مکمل ہوئی تھی ۔۔۔اور اگلے دن یعنی 24 ستمبر کی ایک عجیب گھٹن آلود ۔۔۔تیز روشن دوپہر کے ڈھلتے سمے پر زمین کی گھنگھناہٹ شروع ہوئی۔۔۔۔خوفناک آواز ۔۔درو دیوار کے۔۔لرزنے سڑکوں کے شق ہونے سیڑھیوں کے ٹوٹنے نے ہاسٹل میں مقیم طلبہ وطالبات کو پریشان کردیا ۔مسٹ Must ۔میرپور یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ نے پریشان ہوکربالائی منزل سے چھلانگ لگا کر اس بات کی تصدیق کردی کہ ہمارے طالب علموں کو نیچرل ڈی زاسٹر ٹریننگ کی اشد ضرورت ہے وہ معصوم طالب علم جاں بحق ہوا ۔۔۔تباہی کا عفریت بڑھنے لگا ۔اسلام آباد کراچی پشاور لاہور ملتان ۔۔۔۔۔تمام طلبہ وطالبات کے گھروں میں فون کے گھنٹی کو پر لگ گئے اور کشمیر سے لاہور تک سب لوگ استغفار کا ورد کرتے ہوئے گھروں سے باہر تھے
مسافر بھمبر جاتلاں روڈ پر ٹکڑے ہوتی ہوئی سڑک پر اس چھوٹے سے گاؤں کے اجڑنے کا منظر زخمی آنکھوں سے سمجھنے کی کوشش کرنے لگے کہ یہ ایک لمحے میں دنیا کیوں اجڑ گئی ؟؟؟؟؟؟بس یہی زندگی کی حقیقت ہے ۔۔۔آج بھی تباہ شدہ ملبے پر زمین تھرتھرا رہی ہے ۔۔۔۔آفڑ شاکس آرہے ہیں ۔۔۔۔دھرتی ماں اپنا دکھ اگلنے کے بعد واپس کربناک منازل طے کرتے ہوئے رحم مادر کی طرح اذیت اٹھاتی ہوئے اپنے بچوں کی اذیت دیکھ رہی ہے ۔۔۔اب وقت پھر اتحاد کا تقاضا کر رہا ہے ڈاکٹرز انجینیرز اور نرسنگ ایدھی ٹرسٹ کی ٹیموں اور ۔۔۔پاک آرمی کو سلام ہے ۔۔۔ ۔۔۔تمام مقامی نوجوانوں ۔must …pims —-MiMs میڈیکل کے طلبہ وطالبات کی عظمت کو سلام ۔۔۔جو خون دے رہے ہیں ۔۔۔راہ ہموار کررہے ہیں اور لرزتی شکستہ زمین پر کھڑے ہوئے تمام اہل زمین میرپور کی ہمت کی دعا جاری ہے ۔۔۔۔رات بارش اور بے بسی کا امتحان طویل نہ ہو ۔
مدد کیجیے ہر لحاظ سے اور ان کے نام پر امداد بٹورنے والوں کو عطیات دینے کی بجائے خود براہ راست بحالی کے عمل میں شریک ہوں ۔۔۔صرف یہ سوچ کر جب ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ امتحان اور دوسرے کی مصیبت عذاب ہوتا ہے ۔۔خدارا۔۔یہ سمجھنا چھوڑ دیجیے کیوں یہ صرف آزمائش ہے انسانی بے بسی کی۔۔۔یہ قدرتی آفات ازل سے جاری و ساری ہیں کبھی ان کو خدا سمجھا جاتا تھا آج ان نبرد آزما ہونے کے طریقے اور ہیں ۔۔۔سر اور پتھر کا رشتہ پرانا ہے ۔۔۔ان کو خدا نہیں بلکہ خدائی امتحان سمجھنا ہوگا۔۔۔۔
ایک مشت خاک اور وہ بھی ہوا کی زد میں ہے
زندگی کی بے بسی کا استعارا دیکھنا