وہ موسم سرما کی ایک طلسم زدہ شام تھی ۔ سہ پہر کی میلی دھوپ کچھ دیر پہلے ہی ڈھل چکی تھی۔ میں ریل کی پٹری کے کنارے، بے کیفی کے عالم میں بیٹھا، دھند اور کہرے میں لپٹے پلیٹ فارم کو دیکھ رہا تھا۔
چار سو سناٹے اور خاموشی کے مہیب سائے ڈیرہ جمائے تھے، پچھلے کئی گھنٹوں سے کوئی بھی ریل گزر کر اس گہری خاموشی میں مخل نہیں ہو پائی ۔۔۔ شام اپنے اندر ایک عجیب سی نا خوشگواری سموئے عبث کی فضا میں بہہ رہی تھی ۔ میں گردن پیچھے پھینکے خالی خالی آنکھوں سے آسمان کو دیکھنے لگا۔ گہرے ہوتے سائے دھیرے دھیرے آسمان کا رنگ بھی گہرا کرنے لگے تھے ، مگر میرے اندر کی تاریکی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ بے کیف سانسیں میری دھڑکنوں کو مضطرب کرنے لگیں۔۔۔۔۔ خیال و ملال کی اس سرما زدہ شام میں، میں منہ سے بھاپ کے مرغولے بنا بنا کر چھوڑنےلگا۔
اچانک پٹڑی کے دوسرے کنارے مجھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا، میں نے آسمان پر گڑی نگاہوں کا رخ سامنے کی طرف کیا۔ اس نظارے نے یکدم میری بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کو سنوار دیا۔ ہواؤ ں میں جیسے عطر چھڑک دیا گیا، فضا رنگوں کی قبا اوڑھے محو رقص دکھائی دینے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گویا اس دلفریب نظارے نے لمحہ بھر میں سوگوار ماحول کی ہیت یکسر بدل ڈالی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "وہ سفید ریشم کے لباس میں ملبوس ہلکے نیلے رنگ کا مخملی سکارف اوڑھے، معلوم ہوتا تھا جیسے نیل گگن پر دودھیا سپید بادل چھائے ہوں ، حسین آنکھوں میں انتظار کے جلترنگ، ان میں موجود خواب نگر کو جگمگا رہے تھے،،،،،، اس کے مخملی ننگے پیروں میں چاندی کی پازیبیں جیسے تاروں سے چمک مستعار لیے تھیں،،،، دامن میں سمیٹے ڈھیر سارے گل ِ لالہ پر رکھے اس کے صندلی ہاتھ ان پھولوں سے کہیں زیادہ نازک اور حسین معلوم ہو رہے تھے۔۔۔۔۔ عنابی گالوں پر ہلکے بھنور ڈالتی اس کی دھیمی دھیمی مسکراہٹ دبے پاؤں میرے دل میں اترتی چلی گئی۔ وہ کوئی گیت گنگنا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میں محوِ حسرت اسے دیکھتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
یکدم ایک چنگھاڑتی ہوئی ریل کار نے ہمارے بیچ سے گزرتے ہوئے اس فردوس نظارے کا تسلسل توڑ ڈالا۔۔۔۔ میں بےقراری سے ریل کے گزرنے کا انتظار کرنے لگا ،، مگر ریل جیسے غمء زیست کی سی طویل ہو چلی تھی، گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میری اداسی بڑھنے لگی۔ ریل کا بےہنگم شور میری سماعتوں سے اس کا مدھر گیت چھیننے لگا، میں نے اپنے دونوں ہاتھ مضبوطی سے کانوں پر دھرتے ہوئی آنکھیں میچ لیں،،،،، بلآخر چاروں طرف خاموشی چھا گئی، ریل گزر چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ تند و تیز ریل اس فردوس نظارے کو بھی اپنے ساتھ ہو لیے تھی،،،،،،، پٹری کی دوسری طرف وہ موجود نہیں تھی۔ سارا منظر ایک بار پھر سے پہلی کی سی کیفیت میں ڈوب گیا، وہی عبث زدہ فضا، مہیب خاموشی گھٹن کی صورت پھر سے میری سانسوں کو دشوار بنانے لگیں،،،،، اسے اپنی نگاہوں سے اوجھل دیکھ کر میرے دل میں گہری ٹیس اٹھی،،،،،،،،،،،،
شدتِ درد کی تاب نہ لاتے ہوئے میں بے چین ہو کر اٹھ بیٹھا ،،،،،،،،،،،،،،،،
"مجھے پلیٹ فارم سے اٹھا کر سیدھا بستر پر پٹخ دیا گیا!!!!!!! خواب ٹوٹ چکا تھا!!!!!!!!” مگر سینے میں اٹھا درد ابھی باقی تھا۔۔۔۔۔ میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اس کی تصویر اٹھائی ،،،،،، سفید ریشمی لباس میں ملبوس، ہلکے نیلے رنگ کا مخملی سکارف اوڑھے ، ہاتھوں میں گلِ لالہ لیے، وہ اپنی اس آخری تصویر میں ہمیشہ کے لیے قید ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
آج سے ٹھیک ایک سال پہلے وہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے مجھ سے بچھڑ چکی تھی!!!!!!!!!!!!!
چند سالوں پہلے اس نے میری زندگی کے ویران پلیٹ فارم پر ایک حسین جھونکے کی طرح آ کر فضائے زیست کو پرکیف کر دیا تھا۔۔۔۔ تب بھی وہ اور میں زندگی کی پٹری کی دو مخالف سمتوں پر تھے۔۔۔۔۔ "ساتھ ساتھ بھی،،،، جدا جدا بھی” مگر فاصلے سے مزین اس رفاقت میں بھی قرب و وصل کی جو لذت اس کی محبت میں میسر تھی، بےشک وہ لازوال تھی۔۔۔۔۔۔ پھر اچانک غمِ دوراں کی تیز اور بےرحم ریل ہمارے بیچ سے گزر کر اسے اپنے ساتھ مجھ سے دور،،،،،،، بہت دور لے گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں اس کی تصویر پر لکھی اپنی تقدیر کی تحریر پڑھنے لگا،،،، اس کی ساکن نگاہوں میں یکدم مجھے زندگی مسکراتی محسوس ہوئی۔ تصویر بنے اس کے لبوں کی مسکراہٹ ایک بار بھر سے میرے دل پر دستک دینے لگی، ایسا معلوم ہوا جیسے وہ اپنے ہاتھوں میں تھامے گلِ لالہ میری طرف بڑھا کر یہ پیغام دے رہی ہو کہ وہ آج بھی کسی دوسرے نگر میں ایک حسین پلیٹ فارم پر میری منتظر ہے اور اس بار وہ پٹڑی کی مخالف سمت پر نہیں بلکہ میری طرف ، میرے پہلو میں بیٹھنے کی آرزو لیے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
اس کی طرف سے ملا یہ پیغام میری پلکوں کے کنارے بھگونے لگا اور میری سوچوں کا ویران "پلیٹ فارم” ایک بار پھر اس کی یادوں سے آباد ہو گیا۔۔۔۔۔۔