انگریزی لفظ ہنٹ (Hunt) کا مطلب ہے شکار کرنا، صید کرنا۔ تیتر بٹیر کا یا ہرن کا گوشت اگر آپ خرید کرلائیں گے تو وہ شکار کے ذیل میں نہیں آئے گا لیکن جب انہی پرند و چرند کو آپ گھات یا پھندہ لگاکر پکڑیں گے تو یہ شکار کہلائے گا۔ یہ جو ٹیلنٹ ہنٹ کے نام پر مہمات چلائی جاتی ہیں، یہ بھی اسی اصول اور ضابطے پر کام کرتی ہیں۔ سٹیج آراستہ کرکے اعلان کردیا جاتا ہے اور پھر ملک بھر کے کونے کھدرے سے بظاہر پوشیدہ فن کار، وہاں آکر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ ایسے فن کار نکل آتے ہیں جو ملک کے ثقافتی افق پر نئے ستاروں کی شکل میں جگمگایا کرتے ہیں۔ اگر پہلے سے موجود ستاروں ہی کی مٹھی چاپی کرنی ہے تو پھر یہ ’’ٹیلنٹ ہنٹ‘‘ تو نہ ہوا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا گائیکی اور مصوری کے میدان میں ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ڈویژنل سطح سے ہوتا ہوا اب صوبائی سطح پر سمٹنے جارہا ہے۔ اتوار کے روز ڈویژن سطح کے مقابلے تھے۔ باقی شہروں کا تو مجھے نہیں پتہ مگر ملتان آرٹس کونسل میں ملتان ڈویژن کے جو مقابلے ہوئے، وہ کچھ بھی ہوں، کم از کم ٹیلنٹ ہنٹ نہیں تھے۔ پروفیشنل گلوکاروں نے حصہ لیا، ججز بھی مجبور تھے۔ جب نوآموزوں کے مقابلہ میں پروفیشنل اور باقاعدہ تربیت یافتہ گلوکار گانے آجائیں تو پھر پروفیشنل ہی جیتیں گے۔ پہلی پوزیشن گلوکارہ ثوبیہ ملک نے حاصل کی جو نہ صرف ریڈیو اور ٹیلی وژن کی باقاعدہ اور منظور شدہ اے کلاس سنگر ہیں بلکہ شہرو پورے جنوبی پنجاب کے سٹیج پروگراموں کی بھی مقبول گلوکارہ۔ دوسری پوزیشن نسبتاً نیا نام لے گیا۔ یہ حیدر علی نام کے نوجوان ہیں۔ تیسری پوزیشن انجلینا نے لی۔ یہ اس کا اصل نام ہے، وہ نینسی ویرونکا کے نام سے سٹیج کی گلوکارہ ہے اور پروفیشنل۔ حوصلہ افزائی کی پوزیشنز میں بھی اکثر نام ایسے ہی ہیں۔ سعدیہ اسلم جو موسیقی کے حلقوں میں سعدیہ ہاشمی کے نام سے معروف ہیں، یہ بھی باقاعدہ پروفیشنل گلوکارہ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ، یہ سب لوگ تو اپنے گائیکی کے شعبے میں پہلے ہی جانے پہچانے ہیں اور کسی حد تک نام ور۔ کثیر اخراجات کے ساتھ ’’چیف منسٹر میوزک ٹیلنٹ ہنٹ‘‘ کا مقصد تو ایسے لوگوں کو آگے لانا تھا جن کے پاس ٹیلنٹ ہے مگر ا ظہار کے مواقع نہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی اور رونمائی مقصود تھی مگر پروفیشنل لوگوں نے گھس کر ان کا حق مارلیا۔ کتنا بھی مضبوط ٹیلنٹ ہو، وہ تربیت یافتہ فن کار کا مقابلہ بہرحال نہیں کرسکتا۔ میں نے انٹرنیٹ پر اس ٹیلنٹ ہنٹ کے شرائط و ضوابط دیکھے ہیں۔ بیوروکریسی کے جس بھی بزرجمہر نے یہ بنائے ہیں، اس کا شاید اس طرف دھیان نہیں گیا۔ عمر کی حد اور دیگر شرائط وغیرہ وہی روایتی ہیں۔ اس میں ایک شق یہ ہونی چاہیے تھی کہ پروفیشنل یا ریڈیو، ٹی وی کے گلوکار حصہ نہیں لے سکیں گے۔اگر پیشہ ور گلوکاروں کو ہی نوازنا تھا تو صوبے بھر میں پھیلی آرٹس کونسلوں سے نام منگوالیتے اور ان کو لاہور بلواکر سن لیتے، اتنا بکھیڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
جب سے ڈویژن سطح کے مقابلوں کے نتائج سامنے آئے ہیں، شہر کے موسیقی حلقوں میں ایک اور بحث چھڑی ہوئی ہے۔ تیسرے نمبر کی پوزیشن پر انجلینا ہیں، سعدیہ ہاشمی کا کہناہے کہ یہ میری پوزیشن تھی جو انجلینا کو نوازنے کے لئے دے دی گئی۔ اب جو لوگ موسیقی سے تھوڑی بہت رغبت رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ واقعی سعدیہ اور انجلینا کا کوئی مقابلہ نہیں۔ نازوادا و انداز میں توشاید انجلینا بہت آگے ہے مگر گانے میں سعدیہ زیادہ پکی ہے۔ سعدیہ کا کہنا ہے کہ باقاعدہ اعلان سے قبل ہی سب کو نتائج کا پتہ لگ گیا تھا اور میں تیسرے نمبر پر آرہی تھی مگر پھر پتہ نہیں آخری وقت پر کیا ہوا کہ انجلینا کو تھرڈ قرار دے دیا گیا اور مجھے حوصلہ افزائی کے زمرے میں رکھ دیا گیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ٹاپ 55 میں سے جو ٹاپ 12نکالے گئے، ان میں بھی مقابلہ نہیں کروایا گیا۔ سعدیہ کا کہنا تھا کہ انجلینا اپنا سکیل بھول گئی تھی اور گانے کے دوران دو دفعہ لے سے آؤٹ ہوئی وغیرہ وغیرہ۔
تاہم اس مقابلے کے جج ایسے تھے کہ جن سے میرٹ کے علاوہ کوئی دیگر توقع نہیں رکھی جاسکتی۔ خطے کا معروف گلوکار اور قومی ترانے کی آواز نعیم الحسن ببلو چیف جج تھے۔ ان کے ساتھ امبر آفتاب اور یونس خان تھے۔ یہ دونوں بھی سینئر اور منجھے ہوئے گلوکار ہیں۔ نعیم ببلو سے اس ضمن میں بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مقابلہ اس لمحے کا ہوتا ہے کہ جب Jugement ہورہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعدیہ سینئر ہے اور انجلینا سے گائیکی میں بہتر، مگر اُس روز انجلینا، سعدیہ سے زیادہ اچھا گائی۔ میں نے اپنے نمبر جب امبر اور یونس کے نمبروں میں جمع کئے تو انجلینا کے دو نمبر زیادہ تھے۔ نعیم نے کہا کہ نہ تو ہم پر کوئی دباؤ تھا اور نہ ہم نے اپنے فرائض میں کوئی کوتاہی برتی اور نہ ہی کسی جج نے ذاتی پسند ناپسند کو مدنظر رکھا۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کر منصفی کی ہے۔ منصف کا منصب ایسا ہے کہ ہارنے والا ہمیشہ الزام ہی لگاتا ہے۔
خیر! یہ الگ ایشو ہے اوراس میں کوئی شک نہیں کہ بڑے بڑے منجھے ہوئے گلوکاروں پر بھی کبھی یہ وقت آجاتا ہے کہ وہ کوشش کے باوجود اچھی پرفارمنس نہیں دے سکتے اور بعض اوقات ایسی اچھی پرفارمنس ہوجاتی ہے کہ انہیں خود یقین نہیں آتا۔ تاہم اس سارے تناظر میں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ آئندہ برس جب یہ ٹیلنٹ ہنٹ ہو تو اس میں ایک شِق یہ ضرور ڈالی جائے کہ پیشہ ور گلوکار شرکت کے اہل نہ ہوں گے۔ اسی صورت چھپا ہوا اور مواقع کی عدم دست یابی کا شکار ٹیلنٹ سامنے آسکتا ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ