عائشہ گلالئی کی شوخئ تقریر کا ان دنوں ہرسو چرچا ہے۔ انہوں نے گفت گو کا ایسا لچھا باندھا ہے کہ یہ تحریر لکھی جارہی ہے تو چوتھا دن ہے‘ ہمارا میڈیا اس کے بیچوں سے نکل ہی نہیں پارہا۔ بول کے‘ لکھ کے تجزیہ تجزیہ کھیلنے والوں اور بیچنے والوں کے اسپ ہائے زبان و قلم سرپٹ ہونے کے باوصف‘ تھکنے ہی میں نہیں آرہے۔ آج کی اس تحریر میں مجھے یہ تجزیہ بالکل نہیں کرنا ہے کہ کون درست ہے اور کون غلط‘ الزام کیا ہے اور حقیقت کیا۔ چوں کہ مجھ سے فریقین میں سے کسی کے چمچے کڑچھے نے ابھی تک رابطہ نہیں کیا سو ’’تجزیۂ بے لذت‘‘ کرنے کا فائدہ؟ مجھے تو آپ کو یہ بتانا ہے کہ اس معاملے نے میری دو گتھیاں سلجھادیں۔
محترمہ عائشہ گلالئی کا نام اکثر سوشل میڈیا پر نظر آیا کرتا تھا مگر میں ان کے نام کے دوسرے حصے کا تلفظ کرتے ہوئے ہمیشہ کنفیوژ رہا اور کبھی درست ادائیگی نہ کرسکا۔ ایک تو یہ نام اکثر رومن اردو میں لکھا ملتا‘ اگر اردو میں بھی ہوتا تو میں ’’گلا‘‘ اور ’’لئی‘‘ کو ملاکر پڑھتا۔ اب بزرجمہرانِ میڈیا نے جو بار بار ان کے نام کا وظیفہ کیا تو صحیح تلفظ کا پتہ چلا کہ ’’گلا‘‘ (بروزنِ رس گُلا) اور ’’لئی‘‘ (بروزنِ راولپنڈی کا مشہور نالہ لئی) الگ الگ پڑھے جائیں گے۔ محترمہ کو ہمارے جذباتِ سعید پہنچیں کہ ان کے انکشافات سے‘ ان کے ساتھ ساتھ‘ ان کے قبیلے کے نام کی بھی مشہوری ہوگئی۔ خیر! میرا پہلا خلجان تو یہ دور ہوا۔
دوسری پریشانی‘ پچھلے ایک ہفتے سے مجھے یہ تھی کہ تھانہ لوہاری گیٹ ملتان کے ایس ایچ او نے میرے وقار اور اپنی اصول پسندی کی قیمت لگائی۔ یہ بجائے خود زیادتی ہے‘ اس پر مستزاد یہ کہ بہت کم لگائی مگر آج سویرے اخبار کی ایک خبر پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ہر وقار و ناموس کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔ کسی کی کم‘ کسی کی زیادہ‘ سو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اچھا وہ خبر میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا‘ پہلے آپ ایس ایچ او تھانہ لوہاری دروازہ کی کہانی سنیئے۔
شاہ شمس روڈ پر وحدت کالونی کے دوسرے گیٹ کے عین سامنے اتوار کے روز پولیس نے ایک ناکہ لگاکر جنرل ہولڈ اپ والی صورتِ حال برپا کررکھی تھی۔ سہ پہر ڈھل رہی تھی جب میں بچوں کے ساتھ گھر سے واپڈا ٹاؤن جانے کے لئے نکلا تو میں نے یہ ناکہ دیکھا جہاں بطورِ خاص موٹرسائیکل والوں کی شامت آئی ہوئی تھی۔ ایسے ناکے شہر میں جابہ جا لگے دیکھے شاید اعلیٰ حکام کی طرف سے کوئی خاص ہدایات آئی ہوں۔ بہرحال مغرب کے کوئی دس پندرہ منٹ بعد‘ میں ابھی واپڈا ٹاؤن ہی میں تھا کہ شکیل کا فون آیا۔ جس گھر میں میری رہائش ہے‘ اس کی چاردیواری کے اندر ہی مغربی جانب بنے ایک کمرے‘ برامدے اور کچن پر مشتمل کوارٹر میں شکیل اپنے بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔
میں نے فون اٹینڈ کیا تو بولا ’’صاحب جی! میں اور میرا سالا‘ کالونی کے گیٹ سے باہر نکلے ہیں تو ناکہ لگا تھا۔ پولیس نے ہمیں روک لیا۔ سالے کے موٹرسائیکل کو ابھی نمبر نہیں لگا تھا۔ انہوں نے موٹرسائیکل بند کردی ہے اور منت ترلا بھی نہیں مان رہے۔ ایس ایچ او لوہاری گیٹ خود موجود ہے‘ اسے کہہ دیں ذرا‘‘۔ میری ایس ایچ او مذکور سے واقفیت تو نہ تھی‘ پھر بھی میں نے سوچا کہ تعارف کرواکے درخواست کرنے میں کیا حرج ہے۔ میں نے کہا ’’بات کراؤ‘‘۔ وہ فون لے کر ایس ایچ او کے پاس گیا۔ میں نے شکیل کی یہ آواز سنی کہ ’’سرجی! یہ ذرا صاحب سے بات تو کرلیں‘‘ چار پانچ سیکنڈ تک فون ایک سے دوسرے ہاتھ میں جانے کی کھٹرپٹڑ سی سنائی دی‘ پھر فون کٹ گیا۔
میں نے سمجھا کال ڈراپ ہوگئی ہے۔ میں نے خود فون ملایا تو دوسری طرف شکیل تھا۔ میں نے کہا ’’فون بند ہوگیا تھا‘ اب کراؤ بات‘‘ شکیل بولا ’’صاحب جی! فون بند ہوا نہیں تھا‘ کیا گیا تھا۔ ایس ایچ او نے مجھ سے لے کر بند کردیا تھا‘‘۔ مجھے بڑی سبکی ہوئی۔ میں نے شکیل سے کہا کہ میرا تعارف کرواکے اسے کہو کے بات کرے۔ شکیل ’’اچھا جی‘‘ کہہ کر پھر کسی سے مخاطب ہوا کہ فلاں ڈائریکٹر صاحب لائن پر ہیں بات کرنا چاہتے ہیں مگر ایس ایچ او صاحب نے بات کرنا گوارا نہ کی۔ شکیل نے مجھے بتایا ’’صاحب جی! وہ بات نہیں کرتے‘‘۔ حالانکہ میری یہ ’’عزت افزائی‘‘ صرف شکیل اور اس کے سالے تک محدود تھی مگر سچی بات ہے مجھے بڑی ہی خفت محسوس ہوئی۔ شکیل نے کسی مان پر ہی میرا نمبر ملایا ہوگا نا مگر ایس ایچ او صاحب نے شکیل کے بزعمِ خود ’’صاحب‘‘ کو اپنے کالے بوٹ کی گرد آلود نوک پر رکھا۔
تاہم یہ خفت اور سبکی وقتی تاثر تھا۔ جوں جوں وقت گزرا اور میری انا نے اس سبکی کو قبول کرلیا۔ تب مجھے ایس ایچ او کی ایمان داری اور فرض شناسی پر بڑا ہی رشک آیا۔ فرض کی راہ میں اس نے کوئی سفارش سننا گوارا نہ کی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ میں بھی تو ایک ناجائز کام کا ہی کہنے والا تھا‘ ایس ایچ او مجھ سے زیادہ مضبوط کردار کا نکلا۔ بہرحال! رات دیر سے گھر آیا‘ شکیل سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اگلے دن صبح دفتر جانے کے لئے گاڑی نکال رہا تھا تو شکیل نے گیٹ کھولا۔ میں نے پوچھا ’’آج پھر سپرداری کرواؤ گے موٹرسائیکل کی؟‘‘ شکیل نے بتایا ’’کوئے نا صیب جی! رات تھانے لوہاری گیٹ گئے ہاسے‘ منشی ست سو گھدے‘ موٹرسائیکل گِھن آئے آں‘‘ (نہیں صاحب! رات تھانے گئے تھے‘ منشی نے سات سو روپے لے کر موٹرسائیکل دے دیا ہے)
اب ذرا اُس خبر کا ذکر…. آج کہ جمعرات ہے اور میں یہ کالم لکھتا ہوں تو اخبارات کے صفحۂ اول پر ایک بڑی نمایاں خبر ہے۔ پی ٹی آئی والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ محترمہ عائشہ گلالئی نے ان کے لیڈر کے خلاف تقریر کے پانچ کروڑ روپے لئے۔ پتہ نہیں اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا غلو مگر میں سوچتا ہوں کہ ایس ایچ او لوہاری گیٹ ملتان نے کم از کم اپنی قیمت تو بہتر لگائی۔ دیکھئے! بات حساب کتاب کی ہے اور اعدادوشمار کی۔ میں سمجھاتا ہوں۔ ایس ایچ او نے دو لوگوں (شکیل اور اس کا سالا) کے آگے قانون سے اپنی وفاداری فروخت کرنے کے سات سو روپے وصول کئے۔ گویا ساڑھے تین سو روپے فی کس۔ دوسری طرف محترمہ گلالئی نے اس قوم کے بیس کروڑ عوام کے سامنے ایک جماعت سے اپنی وفاداریاں توڑنے کا اعلان کرنے کے مبینہ پانچ کروڑ وصول کئے۔ اب پانچ کروڑ کو بیس کروڑ پر تقسیم کیجئے تو چار آنے فی کس بنتے ہیں‘ گویا پچیس پیسے۔
محترمہ سے تو ایس ایچ او تھانہ لوہاری گیٹ ملتان اچھا کہ اس نے اپنی وفاداری کی قیمت ساڑھے تین سو روپے فی کس لگائی اور محترمہ نے فقط چار آنے!!…
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ