یہ وقت کیا شے ہے اور کس جنس کا نام۔۔؟ سیانے کہتے ہیں کہ اس نے مادے کے ساتھ ہی جنم لیا۔ اب مادہ خبر نہیں کب سے ہے۔ سنتے ہیں کہ مادے کا ایک بہت بڑا گولا تھا، اتنا بڑا کہ یہ "بہت بڑا” کی اصطلاح اس کے لئے بہت چھوٹی ہے۔ یہ گولا بگ بینگ میں پھٹا اور پھر خلا میں اس کے کھرب ہا ذرات بکھر گئے۔ یہی ذرات سیارے، ستارے کہلائے اور انہی سے مل کر کہکشائیں بنیں، نظام ہائے شمسی بنے۔ زمین بھی اس عظیم الجثہ گولے کا ایک حقیر ذرہ ہے۔ اسی مادے کی حالت میں آنے والی تبدیلیوں کو ماپنے کا جو غیر مادی آلہ ہے، اسے وقت کہتے ہیں۔ کچھ سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ وقت کوئی شے نہیں اور نہ یہ گزرتا ہے۔ سیارے، ستارے اپنے مدار میں گھومتے ہیں، سورج روز اپنا چکر مکمل کرتا ہے، تین سو پینسٹھ چکر پورے کر کے پھر اسی جگہ آجاتا ہے، اس سب میں کہاں ہے وقت؟ یہ تو گھن چکر ہے اور بس۔
ان سیانوں کو دوسرے سیانوں کی بات سنانی چاہئے جو کہتے ہیں کہ تین سو پینسٹھ کو اگر ایک چکر شمار کیا جائے تو سورج ساڑھے پانچ ارب چکر پورے کرچکا ہے۔ کوئی پانچ ارب چکر اور لگیں گے کہ اس کی سینے میں دہکتے الاؤ سرد پڑ جائیں گے۔ یہ جو رفتہ رفتہ آفتاب کا غیض کم کررہی ہے، اسی پھوار کا نام وقت ہے۔ اچھا چھوڑیں، ہمیں وقت اور اس کے وجود سے بحث نہیں، ہمیں تو مادے کی بدلتی حالتوں کا ذکر کرنا ہے۔ وہ ہئیت جو کہیں پیچھے رہ کر روز وشب کے غبار میں کھو گئی۔ ان گزری حالتوں کی یاد کو یار لوگ ناسٹیلجیا کہا کرتے ہیں۔ وہ ناسٹیلجیا جو حساس دلوں کو بھاری کرتا ہے۔ اینٹ، روڑے، گارے سے بنی عمارتیں، روشیں، راستے رہ جاتے ہیں مگر ان پر چلنے والے لوگ بکھر جاتے ہیں، بدل جاتے ہیں۔ پھر جو کبھی ان راستوں سے گزر ہو، ان عمارتوں پر نظر پڑے تو وہ سبھی سنگی ساتھی یاد آتے ہیں جو اس ماحول میں ہمارے روز و شب کے شریک رہے۔ یہ جو وقت کا ذکر تمہید میں در آیا ہے، اس کی بِنا مارچ کی آخری شب کو برپا ہونے والی وہ تقریب ہے جس میں زکریا یونیورسٹی کے سابق طلبا اکٹھے ہوئے۔ وہاں بے شمار ایسے چہرے نظر پڑے کہ جن کی تصویریں صنم خانہ دل میں آویزاں ہیں مگر اب وہ خود اپنی ہی تصویروں سے میل نہیں کھاتے۔ دوہری ٹھوڑیاں، پھولے چہرے، ریڑھ کی ہڈی پر بار بڑھاتے شِکم، سفیدی اوڑھتے مُو ہائے ریش و بروت اور لحم و اُستخواں کو چھوڑ کر ڈھیلی پڑتی جلد۔ مجھے دیکھ کر ان کو بھی یہی لگا ہوگا۔ تب اندازہ ہوا کہ وقت کس شے کا نام ہے اور جب یہ مادے پر بیتتا ہے تو کیسی تبدیلیاں اور کیسے اثرات چھوڑ جاتا ہے۔ یہ تبدیلی ہمارے سامنے رونما ہو تو زیادہ محسوس نہیں ہوتی کہ اس کی رفتار بڑی سست رہا کرتی ہے۔ انجم کاظمی تو خیر آیا ہی نہیں تھا، جمشید رضوانی اور سجاد بری کو دیکھ کر اسی لئے ایسا کوئی احساس بیدار نہیں ہوا جو حاجی زکریا کو دیکھ کر ہوا۔
طبیعت بڑی اداس ہو گئی تھی، بوجھل اور گراں بار۔ یہ گراں باری دراصل بے بسی کی تھی، ماضی میں نہ لوٹ سکنے کی بے بسی۔ مسعود نظامی اور آصف ملیزئی دو ایسے نام ہیں جنہوں نے جنوبی پنجاب کی عظیم مادر علمی زکریا یونیورسٹی کے سابق طلبا کو اکٹھا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ مختلف شعبہ جات تو اپنے سابق طلبا کے اجتماع منعقد کرتے رہتے ہیں مگر ان دوستوں کی کاوش کا منفرد پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جو بلا تخصیصِ شعبہ، یونیورسٹی کے ہر سابق طالب علم کے لئے دل و چشم فرشِ راہ کئے ہوئے ہے۔
مسعود نظامی کہتے ہیں "اولڈ زکرین ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھنے کے لیے سوچ اور ارادہ تو ایک عرصے سے تھا کیونکہ مختلف شعبہ جات کے 1986ء سے 1994ء سیشنز کے دوستوں سے رابطہ رہتا تھا۔ دو تین دفعہ یونیورسٹی سے باہر یہ سب دوست اکھٹے ہوئے لیکن وہ صرف ایک ہی سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ دورانِ تعلیم ہم جس بھی جماعت سے وابستہ رہے، اس سے قطع نظر اب یونیورسٹی کے تمام سابق طلبا کو اولڈ زکرین کے پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ جب عثمان بزدار وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو جو دوست احباب باہم رابطہ میں تھے، انہوں نے اس پر فخر محسوس کیا کہ ہمارے سیشن فیلو اتنے اہم منصب پر فائز ہو گئے ہیں چنانچہ فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ایک باقاعدہ تنظیم کی شکل میں اولڈ زکرین کو پرویا جائے اور مادرِعلمی میں سابق طلبہ کا پروگرام منعقد کیا جائے۔ اس تنظیم کی ابتداء میں آصف ملیزئی، میں خود، رانا سیف الرحمان، رانا راشد سعید، ندیم گجر، جمشید رضوانی، راؤ آصف حمید، چوہدری طارق محمود کاکا، ناصر بگھور، مسعود صادق، پروفیسر مختار، مرزا مسرور، عبدالرب مجاہد جیسے سابق طلبا کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں موجود اولڈ زکرین اساتذہ کرام ڈاکٹر نثار شاہ، ڈاکٹر اسحاق فانی، ڈاکٹر عبدالقدوس صہیب، ڈاکٹر ممتاز کلیانی، ڈاکٹر الطاف لنگڑیال اور ڈاکٹر سلطان محمود کھوکھر کی مشاورت و معاونت شامل رہی”۔
یہ اولڈ زکرین کا مختصر پس منظر تھا۔ پہلی تقریب گذشتہ برس ستمبر میں منعقد ہوئی جس میں شریک نہ ہوسکا تھا، اب مارچ کی آخری شب دوسری تقریب میں شامل ہوا اور اگلے کئی دن ناسٹیلجیا اوڑھے رہا۔ اس تقریب میں تنظیم کا شعبہ خواتین بھی تشکیل دیا گیا۔ (اندازہ کیجئے وہ جو لڑکیاں تھیں، ان کو اب خواتین لکھنا پڑ رہا ہے، یہ ہے وقت کا مادی اجسام کا تصرف) وائس چانسلر طارق محمود انصاری خود بھی چونکہ اولڈ زکرین ہیں، وہ بھی بنفسِ نفیس رات گئے تک تقریب میں موجود رہے۔ وائس چانسلر صاحب نے اگلی تقریب بڑے پیمانے پر یونیورسٹی کی طرف سے کروانے کا اعلان بھی کیا۔ امید ہے کہ یہ سلسلہ بھرپور طریقے سے جاری و ساری رہے گا۔
شب ایک بجے جب میں گھر واپسی کے لئے یونیورسٹی ایگزیکٹو کلب سے نکلا تو یونیورسٹی کی سڑکوں پر رات اپنا بھیگا بدن لئے لیٹی تھی۔ رات استراحت کرتی ہے تو اسے مداخلت ناگوار ہوا کرتی ہے، اسی لئے رات اور ویرانی کا ساتھ چولی اور دامن والا ہے۔ میرا تصرف بھی اسے برا لگا ہوگا مگر میرے تخیل کے طاقت کے آگے رات مجبور ہوکر اپنا بوریا لپیٹ گئی، وقت بھی تحلیل ہوکر وجود کھو بیٹھا۔ یونیورسٹی کی راہیں روشن ہوگئی تھیں اور ان پر وہی چہرے رواں دواں تھے جو میرے صنم خانہ دل کے مکیں ہیں۔ میرا موجودہ پیکر بھی کہیں کھو گیا تھا اور میں نے انیس صد بانوے، ترانوے، چورانوے اور پچانوے والی جون اوڑھ لی تھی۔ میں وہی دیکھ رہا تھا جو دیکھنا چاہتا تھا۔ رانا عارف، ندیم سرور، افتخارالحق، ثناءاللہ بھی قبروں سے لوٹ آئے تھے اور میرے ساتھ تھے۔ یہ سوشل سائنسز بلاک کے شعبہ سیاسیات سے عثمان بزدار نکلا ہے، اس کے ساتھ کون ہے، یہ میں نے دیکھا مگر آپ کو نہیں بتا سکتا۔ وہ لینگوجز بلاک کے شعبہ انگریزی سے رؤف کلاسرہ چلا آرہا ہے، اس کے ساتھی کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوگا۔ لیجئے طویل قامت کے ساتھ پیروں کو جھٹکے دے دے کر اٹھاتا ظفر آہیر عمر ہال سے نکلا ہے۔ وہ شکیل انجم آگیا، کلف لگے کپڑے کھڑکھڑا کے چلتا ہے۔ یہ سب آج کی تقریب میں موجود نہیں تھے مگر میرے ساتھ ہیں کیونکہ میرے خیال کی ٹائم مشین مجھے جس دور میں لے گئی ہے تب یہ سارے ہمارے طالب علم ساتھی تھے، اب بڑے لوگ ہیں۔
پھر جب میں مریم ہال کے سامنے سے گزرا تو یکایک دہل گیا۔ خیال آیا کہ ابھی کہیں سے "بھائیوں” کی ٹولی برآمد ہوکے دبوچ لے گی کہ میاں کدھر کی سیر ہے؟؟ وہاں سے گزرنے کی کوئی معقول وجہ نہ بتا سکا تو سڑک پر ہی مرغا بننا ہوگا۔ تاہم یہ دہلاوا چند سیکنڈز کا تھا، ایکا ایکی میرا تخیل حال میں لوٹ آیا اور میں مسکرا دیا۔ وہ جو مریم ہال کے سامنے گشت ڈیوٹی پر ہوا کرتے تھے، وہ تو وہاں ایگزیکٹو کلب میں عارف خان بابر کے گیتوں پر جھومر اور لڈیاں ڈال رہے ہیں۔ چنانچہ میں بے خطر مریم ہال کے آگے سے گزرتا چلا گیا۔
فیس بک کمینٹ