سجاد جہانیہکالملکھاری
جملہ ہائے معترضہ ۔۔ دیکھی سنی / سجاد جہانیہ

جمعہ کے روز سویر گئے، قریب گیارہ بجے بوسن روڈ پر واقع اس بینک میں جہاں میرا تنخواہ کا کھاتہ ہے، بل ادا کرنے کو گیا۔ یہ بجلی، ٹیلی فون اور گیس کے محکمہ والوں کو بھی خدا ہی سمجھے تو خیر وگرنہ کسی انسان کا بس نہیں۔ میں ملتان شہر میں سرکاری ملازمین کی بستی میں رہتا ہوں۔ یہاں بجلی، ٹیلی فون اور گیس کے بل مہینے کی آخری تاریخوں میں وارد ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا کنکشن نہ لیا ہو تو خیر تار والے ٹیلی فون کی طرف تو اب کوئی دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا مگر پھر بھی آخری تاریخ کے ذیل میں ٹیلی فون والے نئے ماہ کی چار تاریخ ڈال دیا کرتے ہیں مگر یہ بجلی اور گیس والے….! ان کے بلوں کی آخری تاریخ، مہینے کی آخری تاریخ سے بھی دو ایک روز پہلے ہوا کرتی ہے۔ اب بھلا ہر محکمہ میں تو فرائضِ منصبی کی انجام دہی کے دوران چڑھاوا یا نذرانہ پانے کے مواقع نہیں ہوتے، کچھ محکمے تعلقاتِ عامہ جیسے غیرزرخیز اور بنجر بھی ہوا کرتے ہیں۔ ایسوں سے وابستہ سرکار کے ملازم کن جان جوکھوں سے مہینے کے آخری دنوں میں بل ادا کرتے ہیں، یہ کچھ ہم ہی جانتے ہیں۔
خیر! یہ جملہ ہائے معترضہ تھے۔ بینک کے راستے میں عین اس جگہ جہاں میٹروبس کا سبزہ زار سٹیشن بنا ہے، وہاں گلی کی نکڑ پر ببی قصائی کی دکان ہے۔ ببی کے ہاں سے ہمارے گھر اُس وقت سے گوشت آتا ہے جب وہ ہاتھ پیر سے توانا تھا۔ اب تو اُس کے ہاتھوں کے بعد سر میں بھی رعشہ چھوٹنے لگا ہے۔ اُس وقت بکرے کا گوشت پہنچ میں بھی تھا۔ کچھ تو نرخ مناسب تھے اور پھر ادائیگی مجھے نہیں کرنی ہوتی تھی۔ اب میں ایک گھرانے کا سربراہ ہوں تو ساری ادائیگیاں بھی مجھے ہی کرنی ہوتی ہیں۔ سو ببی کی دکان پر جانے کے وقفے بڑھ گئے ہیں۔ اس ملک کے مجھے ایسے عام شہری بکرے کی انتڑیوں اور دیگر آلائشوں سے بنی خوراک کھانے والی برائلر مرغی کا گوشت تو گھر لاسکتے ہیں، بکرے کا نہیں۔ سٹیرائیڈز کھا کھا کر سوجی اور پھولی ہوئی برائلر جو کھانے والے پر اینٹی بائیوٹک کا اثر تک نہیں ہونے دیتی۔ پھر جب ادائیگی کا وقت آیا تو میرا ببی سے جھگڑا ہو گیا۔ میں نے کہا یار تم ہر دفعہ نرخ میں سو پچاس روپے کا اضافہ کر دیتے ہو۔ ببی بڑا بدلحاظ ہے، کہنے لگا ”آپ کی ہر دفعہ میں چھ آٹھ مہینے کا وقفہ ہوتا ہے، اس دوران ریٹ تو بڑھے گا ناں باﺅجی۔ پھر جب گوشت کا بھاﺅ تاﺅ، درآمد برآمد کا کسب اقتدار کے ایوانوں سے ہونے لگے اور آپ ایسوں کو چھ آٹھ مہینے بعد بھی مٹن پکانے کی توفیق حاصل ہو جائے تو غنیمت جانیں اور اچھی طرح وضو بنا کے شکرانے کے دو نفل ادا کریں“۔
یہ بھی معترضہ جملے تھے جن کا آج کے کالم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جب ایک کلو قیمے کے نام پر تولے جانے والے سفید چربی کے ڈھیر میں سے ببی قصائی کا ایک کاری گر اس چربی میں کہیں کہیں الجھا ہلکا سرخی مائل گوشت الگ کر رہا تھا تو انتظار کی بوریت سے بچنے کے لئے میں باہر نکڑ پر آن کھڑا ہوا۔ سامنے ملتان میٹرو بس کا سبزہ زار سٹیشن تھا جس کا متحرک زینہ اوپر کو چڑھتا تھا۔ قریب ہی سولہ کنال کی کوٹھی میں بنے ایک نجی کالج سے طالبات برآمد ہو ہوکر اس متحرک زینے پر چڑھنے لگیں۔ یونی فارم پہنے کچھ طلبا بھی تھے۔ اتنے میں ایک کار زینے کے پاس رکی جس سے کالے برقعوں میں ملبوس تین خواتین اتریں، دو جوان اور ایک بزرگ۔ دونوں بچیوں نے فربہ اندام بزرگ خاتون کا ہاتھ تھاما اور راہ نمائی کر کے ایک زینے پر کھڑا کر دیا۔ بزرگ خاتون، بیٹیوں کا ہاتھ تھامے کھڑے کھڑے اوپر کو جانے لگیں۔ ایک دیہاتی سا ادھیڑ عمر شاپر جھُلاتا زینے کو لپکا۔ کشادہ بوسن روڈ کے اوپر ہر دو جانب میٹرو بس کا ٹریک دور تک چلا گیا تھا۔ میں نے سوچا مہینہ بھر پہلے یہ طالبات، یہ خواتین، یہ دیہاتی ادھیڑ عمر کن سواریوں پر سفر کرتے ہوں گے۔ رکشوں میں، سوزوکیوں میں، ویگنوں میں اور بندبوسن سے جنرل بس سٹینڈ کو جانے والے خستہ و ابتر حال بسوں پر۔ کرایہ بھی زیادہ اور دھکے بونس میں۔ سرخ رنگ کی چمکتی دمکتی میٹرو بسیں، سطحِ زمین سے پچیس تیس فٹ اوپر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر جاتی کیا خوش منظر لگتی ہیں اور ان میں سوار میرے شہر اور نواح کی بیٹیاں، مائیں، بزرگ کیسے آسودہ۔
خیر چھوڑئیے! یہ بھی جملہ ہائے معترضہ تھے۔ گوشت اور قیمے کا شاپر لے کر جب میں سبزہ زار سے 6 نمبر چنگی کی طرف روانہ ہوا تو دور تک میٹرو کے ستون، سروں پر سڑک اٹھائے ایک منظم قطار میں کھڑے تھے۔ گویا سپاہیوں کی کوئی قطار ہو۔ ہلکے گرے رنگ کے خوش نما ستون۔ ہر نوے فٹ پر ایک ستون اور اس نوے فٹ میں ستون کی چوڑائی برابر گرین بیلٹ۔ ایسے صاف اور اُجلے ستون! مجھے لگا میں کسی ترقی یافتہ اور مہذب ملک میں موجود ہوں۔ مگر جلد ہی یہ خواب ٹوٹ گیا اور ”ثریا نے زمیں پر آسمان سے ہم کو دے مارا“۔ آٹھویں دسویں ستون پر ہی جہازی سائز کا ایک مجلسِ عزا کا پوسٹر چسپاں تھا، اس کے ساتھ ہی کسی مدرسے کے سالانہ جلسے کا پوسٹر۔ پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ کہیں پورے پوسٹر، کہیں کٹے پھٹے۔ ابھی چوں کہ صرف ایک ماہ ہی ہوا ہے میٹرو کو شروع ہوئے سو پوسٹر کم تھے مگر دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔ ابھی ان ستونوں پر کم زوری دور کرنے کے دعوے دار حکیموں کے اور ہر عمل کی کاٹ کے ماہر عاملوں کے اشتہار لگیں گے۔ سپرے کے ساتھ نعرے لکھے جائیں گے۔ سیاسی جلسوں کے اشتہار چسپاں ہوں گے۔ تب یہ پاکستان کی میٹرو لگے گی۔ کیا پی ایچ اے والوں کے پاس ایسی بیلیں دست یاب ہیں جو چاروں طرف سے ان پلرز پر چڑھ جائیں؟ اس سے ایک تو سبز رنگ بصارتوں کو آسودگی دے گا دوسرے ان بدنما اشتہارات سے پلرز محفوظ ہوجائیں گے۔
یہ فرمائش اور اس سے اوپر کا پیراگراف بھی جملہ ہائے معترضہ ہیں۔ جملہ معترضہ وہ کلمہ ہوتا ہے جس کا تعلق نفسِ مضمون سے نہ ہو اور اس کو حذف بھی کردیا جائے تو تحریر کے مطالب و مفاہیم پر کوئی فرق نہ پڑے۔ مطلب کی اور کام کی بات کو جملہء انشائیہ کہتے ہیں۔ آج کا سارا کالم ہی معترضہ کلمات پر مشتمل ہے اور دراصل آج ہی یہ کالم اسم بامسمیٰ ہے۔ اس کالم کا نام ”دیکھی سنی“ ہے اور انسان دن بھر میں جو کچھ دیکھتا، جو کچھ سنتا ہے، سبھی بامعنی اور انشائیہ ہی تو نہیں ہوتا۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)