زندگی آغاز اور اختتام کے کناروں میں مقید ہے۔ ان کناروں کے بیچ بہتی وقت کی ندی کا پاٹ کیسا ہی چوڑا کیوں نہ ہو بالآخر طے ہو کے رہتا ہے۔ محقق، مترجم، افسانہ نگار، سفر نامہ نگار، صحافی ڈاکٹر حنیف چودھری دس اکتوبر 1929ء کو اس ندی میں اترے اور پانچ اکتوبر 2023ء کو دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ وہ کنارا جو لاعلمی کی دھند میں لپٹا ہے اور ہنوز انسان کا علم اور ذہن کوئی ایسا عدسہ تیار نہیں کر سکا جو اس دھند کے پار دیکھ سکے۔ سن دو ہزار گیارہ میں جب وہ بیاسی برس کی عمر میں اپنا پی اہچ ڈی کا مقالہ لکھ رہے تھے تو میں نے ان کا انٹرویو کیا تھا جو ایک قومی اخبار کی رنگین اشاعت میں شائع ہوا اور میری کتاب "ادھوری کہانیاں” میں خورشید پور کا حنیف کے عنوان سے شامل ہے۔
6 اکتوبر جمعۃالمبارک کی سویر ڈاکٹر حنیف چودھری ملتان کی زمین اوڑھ کے لمبی نیند سو گئے۔۔
ملتان۔۔ جہاں اترنے کے بعد پہلی سرد رات انہوں نے ایک بجھے ہوئے تنور اور گلی کے آوارہ کتوں کے قرب کی گرمی میں بسر کی۔
ملتان۔۔۔ جس کو کھوجتے انہوں نے عمر بسر کر دی۔
پنجابی کے عالمِ بےبدل ڈاکٹر حنیف چودھری کی یہ کہانی ان کی ہی زبان میں تحریر کی گئی ہے۔ وقت میسر ہو اور طبیعت مائل تو پڑھئے گا اور دیکھئے گا کیسا درویش ہم نے کھو دیا۔
خورشید پور کا حنیف
”میرے گاﺅں کا نام خورشید پور تھا۔ یہ ضلع جالندھر کی تحصیل نکودر شہر سے فقط تین میل دور تھا۔ میرے والد صاحب پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور ہماری چار مربع اراضی تھی‘ بڑی زرخیز اور سونا اگلنے والی۔ تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا میں ہوں۔ میرے تایا تائی بھی اسی گاﺅں میں رہتے تھے‘ ان کی اولاد نہ تھی۔ میری پیدائش 1929ء کی ہے۔ گویا جب پاکستان بنا تو میں اٹھارہ برس کا تھا اور میٹرک پاس کر چکا تھا۔ ہمارا گاﺅں خورشید پور قریب قریب دو سو گھروں پر مشتمل تھا جن میں آدھے گھر مسلمانوں کے تھے اور آدھے سکھوں کے‘ چند ہندوﺅں کے بھی تھے۔ میں ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی سکول نکودر میں پڑھتا تھا۔ ایک پگڈنڈی تھی جو ہماری گاﺅں سے نکودر کی طرف جاتی اور ہم دونوں بھائی نیکریں پہن کر اس پر ہنستے کھیلتے‘ دوڑتے سکول کو جایا کرتے تھے۔ عرش ملسیانی ہمارے ہیڈ ماسٹرتھے۔ دعا کے وقت وہ بید ہاتھ میں لے کر وردیاں چیک کرتے اور نیکر نہ پہننے والوں پر بید آزماتے۔
راستے میں ماہوں دی کھوئی پڑتی تھی جس کے قریب ایک بڑا سایہ دار برگد تھا۔ یہ کھوئی کسی ہندو عورت نے مسافروں کے لئے تعمیر کرائی تھی۔ گرمیوں میں سکول سے واپسی پر ہم اس برگد کی چھاﺅں میں بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے۔ وہاں موجود بوڑھے لالہ جی بانس کی لمبی سی نلی کے ذریعے ہمیں پانی پلاتے۔ ہمارے سکول کی رسہ کشی اور فٹ بال کی ٹیمیں بڑی مشہور تھیں۔ رسہ کشی ٹیم کا کپتان پھمن سنگھ تھا جو بڑے ہی غیر معمول ڈیل ڈول کا مالک تھا۔ سات فٹ سے نکلتا ہوا قد تھا‘ وہ سب سے آخر میں ہوتا اور کمر کے گرد رسہ لپیٹ کر زمین میں پیر جما کر ایسے کھڑا ہو جاتا گویا دھرتی کا ہی حصہ ہے۔ ہماری ٹیم کے کھلاڑی بسا اوقات حوصلہ ہار بھی دیتے تو بھی اکیلا پھمن سنگھ اپنی جگہ کھڑا رہتا اور مخالف پوری ٹیم بھی اس کو اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی تھی۔ اور یقین جانئے، اس امر میں بھی قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ وہ لسی کی پوری چاٹی پی جایا کرتا۔
خورشید پور کی بہت سی یادیں میرے حافظے میں اس طرح سے محفوظ ہیں کہ جیسے کل کی بات ہو۔ ہمارے گاﺅں میں ایک چمار ہوا کرتا تھا جس کا نام رام داس تھا۔ چمار مردار کھانے والے کو کہتے ہیں۔ گاﺅں کا کوئی جانور مر جاتا تو یہ اسے اٹھا کر آبادی سے باہر لے جاتے اور اس کی کھال اتار کر فروخت کر دیتے جب کہ گوشت کھا لیا کرتے۔ ہندوﺅں کو یوں تو ماس خوری سے گریز ہوا کرتا ہے مگر مردار کے بارے میں ان کے پاس مسلمانوں کے مقابلے میں یہ توجیہہ تھی کہ تم اپنے ہاتھوں مار کر کھاتے ہو جو ظلم ہے جب کہ ہم تو رب کے مارے ہوئے کو کھاتے ہیں۔ ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ رام داس کی ایک بیٹی لچھی نام کی تھی۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بڑے زور کی آندھی چلی اور گاﺅں کے چوک کے بیچوں بیچ لگا ایک بوڑھا اور دیو ہیکل برگد گر گیا۔ سال بھر تو اس کی لکڑی گاﺅں والے استعمال کرتے رہے جو آتا اپنی ضرورت کی چند شاخیں کاٹ کر لے جاتا۔ آخر میں اس کا تنا بچ رہا جو بڑا ہی جسیم تھا، کم و بیش سات، آٹھ من کا تھا اور گاﺅں کی ”ٹریفک“ میں رکاوٹ کا باعث بنتا تھا۔ ایک دن گاﺅں کے چند جوان مل کر اس تنے کو ہٹانے کی کوشش کرتے رہے مگر ان سے یہ تنا سرک کے نہیں دیا۔ یہ بات گاﺅں میں مشہور ہوگئی اور تنے کو ہٹانے کے لئے ترکیبیں سوچی جانے لگیں۔
اسی شب معمول کے مطابق گاﺅں کی عورتیں اکٹھی ہو کر رفع حاجت کیلئے کھیتوں کی طرف روانہ ہوئیں تو ان میں یہی موضوع زیر بحث تھا۔ عورتوں میں لچھی بھی شامل تھی جو بڑا ہی مضبوط اور توانا تن و توش رکھتی تھی۔ چوک میں پہنچ کر اس نے کہا کہ تم سب مل کر اس تنے کو کسی طور میرے شانوں پر رکھ پاﺅ تو میں اسے دور پھینک کر آ سکتی ہوں۔ چناں چہ یہی ہوا۔ عورتوں نے مل کر تنا اس کے کاندھوں پر رکھا اور وہ اسے گاﺅں سے باہر پھینک آئی۔ اگلے روز پورے گاﺅں میں اس امر کا شہرہ ہوا کہ جس تنے کو جوان نہ ہلا سکے اسے ایک لڑکی نے اُٹھا کر راستہ صاف کر دیا۔
گاﺅں کے سکھ نمبردار پھمن سنگھ نے رام داس کو طلب کیا تو وہ بے چارہ کمی کمین لرزتا کانپتا پیش ہو گیا۔ نمبردار نے پوچھا "یہ کل رات تمہاری بیٹی نے کیا کیا؟” رام داس اپنے تئیں اس امر کو غلطی گردانتے ہوئے معافی کا خواست گار ہوا۔ نمبردار نے کہا "ایسی بات نہیں، لچھی نے تو جوانوں سے بڑھ کر کام کیا ہے۔ پھر نمبردار نے اپنے گھر میں بندھی سب سے توانا بھوری بھینس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”یہ بھوری لے جاﺅ اس کا دودھ لچھی پیا کرے اور جب لچھی کی شادی کرنا تو یہ بھوری اس کے جہیز میں گاﺅں کی طرف سے تحفہ دے دینا“۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہمارے گاﺅں میں ہندو‘ سکھ‘ مسلمان سارے رہتے تھے تاہم ان میں باہمی نفرت کا شائبہ تک نہیں تھا جو تقسیم کے وقت یکایک نہ جانے کیسے پیدا ہو گیا۔ ہمارے گھر کے سامنے رام لعل سنار کا گھر تھا‘ اس کی دو بیٹیاں تھیں کوشیلا اور مایا دیوی۔ وہ میری بہن کی بڑی گہری سہیلیاں تھیں۔ اس کے ساتھ ہی سکول میں پڑھتی تھیں۔ تب لڑکیوں اور لڑکوں کے سکول جدا نہیں ہوتے تھے۔ بس ان کو الگ الگ قطاروں میں بٹھا دیا جاتا اور وہ اکٹھے تعلیم حاصل کرتے۔ وہ دونوں اکثر ہمارے گھر ہی کھیلا کرتیں اور ماں جی کے ہاتھ کا بنا کھانا بھی کھا لیا کرتیں تاہم یہ کہتیں کہ ہماری ماتا کو نہ بتانا۔
میں زندگی میں پہلی بار والد صاحب سے اجازت لے کر گاﺅں کی ایک بارات میں شامل ہوا۔ یہ بارات گاﺅں سے چھ سات میل دور جانا تھی اور سواری کے لئے گڈ تیار کئے گئے تھے جن کو بیل کھینچتے۔ یہ مسلمانوں کی بارات تھی اور رواج یہ تھا کہ بارات والے دلہن کو قرآن پڑھانے والی استانی اور دائی کیلئے ایک سوٹ اور سوا روپیہ فی کس لے کر جاتے تھے۔ جس گاﺅں میں بارات نے اترنا تھا وہاں ہمارے گاﺅں کے چماروں کی ایک لڑکی بھی بیاہی ہوئی تھی۔ لڑکے کے والد نے کہا کہ وہ گاﺅں کی بیٹی ہے اس کے لئے بھی ایک سوٹ اور سوا روپیہ لے کر جانا۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ تب کمی‘ زمیں دار‘ مسلمان‘ سکھ‘ ہندو ہونا ثانوی باتیں تھی‘ گاﺅں کی بیٹیاں اور ان کی عزت و توقیر سانجھی ہوا کرتی تھی۔
میرے والد گاﺅں کے واحد پڑھے لکھے شخص تھے۔ پورے گاﺅں میں انہیں میاں جی کہہ کر پکارا جاتا اور گاﺅں بھر کے لئے خط پتر لکھنے کی خدمات بھی انہی کے ذمہ تھیں۔ وہی کبھی کبھار شہر جاتے تو دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی خبریں لا کر گاﺅں والوں کو سناتے۔ ملکی حالات سے بے خبری کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 1935ءمیں آنے والے زلزلہ کے نتیجہ میں کوئٹہ شہر کے پیوند زمین ہونے کی خبر ہمارے گاﺅں میں چھ ماہ بعد پہنچی۔ چناں چہ تحریک پاکستان کی خبریں بھی ہمارے ہاں خال ہی پہنچتیں۔ جب پاکستان کا قیام قریب آ لگا تو والد صاحب ہی ایک دن شہر سے خبر لے کر آئے کہ نیا ملک بن رہا ہے اور جالندھر اسی کا حصہ ہو گا بلکہ پاکستان کی حدود ہوشیار پور تک ہوں گی۔ سو ہم مطمئن تھے اور خوش بھی کہ بیٹھے بٹھائے نئے اسلامی ملک کا حصہ بن گئے۔
مسلم لیگ کا نام ہمارے گاﺅں میں جانا پہچانا تھا تاہم اسے مسلم لیک کہا جاتا۔ ”لیک“ پنجابی میں لکیر کو کہتے ہیں اور ان پڑھ دیہاتیوں کا یہ ماننا تھا کہ قائد اعظم نے جو لکیر(راستہ) وضع کر دی ہے بس آنکھیں بند کر کے اسی پر چلتے جانا ہے۔ 1947ء کا سن تھا، اگست کا مہینہ گزر گیا اور ہمارے گاﺅں میں پاکستان بننے کی خبر تک نہ پہنچی۔ ستمبرکے اوائل میں والد صاحب پھر شہر گئے تو انہیں پتہ چلا کہ جالندھر تو ہندوستان میں رہ گیا ہے۔ چند دن اسی پریشانی میں گزر گئے تاہم ہمارے گاﺅں میں ابھی تک امن تھا۔
ستمبرہی کی کوئی رات تھی گھر والے نیچے صحن میں سو رہے تھے اور میں چھت پر۔ رات کے کسی پہر گاﺅں میں شور اُٹھا اور میری آنکھ کھل گئی ۔ کوٹھے پر کھڑا ہو کر دیکھتا ہوں تو گاﺅں کے چہار اطراف آگ لگی ہے اور شعلے اُٹھ رہے ہیں۔ چار پانچ سو سکھوں اور ہندوﺅں نے خورشید پور پر حملہ کر کے گاﺅں کے گردا گرد بنے مویشیوں کے باڑوں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ میں نے جھانک کر صحن میں دیکھا تو افراتفری کا عالم تھا اور شور قیامت۔ ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ اسی آپا دھاپی کے عالم میں حواس باختہ ہو کر میں پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا اور چھپتا چھپاتا گاﺅں کے باہر کماد کے کھیت میں روپوش ہو گیا۔ گھر والوں کی مجھے کوئی خبر نہ تھی اور اپنی جان کے لالے الگ پڑے تھے۔ صبح ہوئی تو جلے ہوئے مکانوں سے دھواں اُٹھ رہا تھا اور گڈ کے گڈ لاد کر لوٹ کا سامان لے جایا جا رہا تھا۔ اسی اثناء میں ظالموں نے کماد کے کھیت کو بھی آگ لگا دی۔ اس سے ملحق مرچوں کی فصل تھی‘ میں نے اس میں رینگ گیا۔ پھر اس سے آگے کپاس کے کھیت میں چلا گیا۔ پورا دن وہاں گزارا اور اگلی رات بھی۔
دو راتوں اور ایک دن کا بھوکا پیاسا تھا۔ نقاہت غالب آتی تھی مگر موت کا خوف اسے قریب نہ پھنکنے دیتا۔ پوپھٹی اور صبح کا اجالا پھیلنے لگا تو کپاس کے کھیت میں مجھے کسی نوزائیدا بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ میں سمجھا شائد کوئی اور بھی چھپا ہوا ہے۔ یہ آواز وقفے وقفے سے آتی اور پھر ڈوب جاتی۔ مجھے سمت کا تعین کرنے میں بڑی مشکل پیش آ رہی تھی۔ بالآخر کوئی گھنٹے بھر کی جدوجہد کے بعد جب اُجالا ہو چکا تھا تو میں آواز کے منبع تک پہنچ گیا۔
اب وہاں جو منظر دیکھا تو میری روح کانپ اُٹھی اور جسم کا ایک ایک رونگٹا گویا ایستادہ کر دیا گیا ۔ ایک جوان عورت کی سر بریدہ لاش پڑی ہے اور ایک دو اڑھائی ماہ کا بچہ اس کے بازو پر سر رکھے لیٹا ہے۔ بچہ نیم غشی کی کیفیت میں ہے اور ہمک ہمک کر دودھ کی تلاش میں ماں کی چھاتی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہوا میں اپنے ہونٹ چلاتا ہے گویا دودھ چوس رہا ہو۔ پتہ نہیں وہ کب سے اس عالم میں تھا اور اب بھوک نے اسے بے حال کر کے رونے کی طاقت بھی جیسے سلب کر لی تھی۔ وقفے وقفے سے رونے کی کوشش کرتا مگر تھوڑی آواز نکلتی اور اس پر غشی غالب آ جاتی۔ خوف اور حیرت کی ساعتوں سے نکلنے کے بعد جو پہلا رد عمل میرے اندر اُٹھا وہ یہ تھا کہ بچے کو اُٹھا لوں اور ساتھ لے چلوں۔ پھر میں نے سوچا کہ مجھے تو اپنی زندکی کا کوئی پتہ نہیں‘ کس مقام پر کس طرح مارا جاﺅں‘ بچے کو کیوں کر سنبھال پاﺅں گا۔ بڑی دیر میرے اندر یہ کش مکش جاری رہی۔ کوئی فیصلہ نہ ہو پا رہا تھا۔ بالآخر دل نے مات کھائی اور عقل جیت گئی۔ میں بچے کو وہیں چھوڑ کر بھاری قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ دل گویا کسی بھاری پتھر تلے آ گیا تھا۔ سینے پر دُکھ اور پچھتاوے کا بوجھ تھا مگر میں چلتا گیا۔ یہ بوجھ آج بھی میں محسوس کرتا ہوں۔
چہار سو ویرانی تھی۔ بلوائی لوٹ مار کر کے اگلے اہداف کو روانہ ہو چکے تھے۔ مجھے دور کہیں سے چلتے بیلوں کی گھنٹیاں سنائی دیں۔ یہ کوئی قافلہ تھا جو نکودر کو جاتا تھا۔ میری تمام حسیں سمت آشنائی کا شعور فراموش کر بیٹھی تھیں۔ قافلے کے ساتھ ہو لیا اور پتہ نہیں کس وقت نکودر سے ہوتا جالندھر پہنچ گیا اور ایک گاڑی (ٹرین) میں سوار ہوا۔
سٹیشن پر خبریں گرم تھیں کہ آگے جانے والی گاڑی بیاس کے پُل پر کاٹ دی گئی ہے۔ مال گاڑی کے ڈبوں میں ٹھنسے تمام مہاجرین کے چہروں سے خوف برستا تھا اور زبانیں گنگ ہو کر رہ گئی تھیں۔ مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے گھر والوں کی تھی۔ پتہ نہیں کہاں ہوں گے کس حال میں ہوں گے‘ میں ان سے مل بھی سکوں گا یا نہیں۔ خیر ہماری گاڑی عافیت سے لاہور پہنچ گئی۔ سٹیشن پر اُتر کر مہاجرین کے کیمپوں میں بھٹکتا پھرا کہ شائد کہیں بہن بھائی اور والدین مل جائیں۔ کسی نے کہا کہ جالندھر کے مہاجرین شیخوپورہ گئے ہیں۔ ان دنوں مقامی ٹرانسپورٹ والے مہاجرین سے کرایہ نہیں لیتے تھے۔ ریل کا بھی ٹکٹ نہیں ہوتا تھا۔ بے سروسامان اُجڑ کر آنے والوں کے لئے مقامی لوگوں کے دل کھلے تھے۔
میں شیخوپورہ چلا گیا مگر وہاں بھی گھر والے نہ مل سکے۔ پھر مجھے یاد آیا کہ لائل پور کے علاقہ سمندری میں ہماری ایک دور کی رشتہ دار رہتی تھی۔ والد صاحب ان کو اکثر خط بھی لکھا کرتے تھے۔ اسی نسبت سے مجھے اس چک کا نمبر 472 گ ب بھی یاد رہ گیا‘ میں وہاں چلا گیا۔ گاﺅں میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ خورشید پور کے دو آدمی مل گئے۔ ان کو دیکھ کر میں نہال ہی تو ہو گیا۔ ان سے پتہ چلا کہ میرے گھر والے بورے والا کے چک نمبر 505 میں ہیں۔ میں اُلٹے پیروں مڑا اور ساہیوال سے ہوتا ہوا چک 505 پہنچ گیا۔ اس ساری تلاش میں اڑھائی ماہ بیت چکے تھے۔
جب میری والدہ نے مجھے اپنے سامنے دیکھا تو ان کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ وہ مجھے چومتی تھیں اور ٹٹول ٹٹول کر دیکھتیں کہ یہ سب حقیقت ہے یا کوئی خواب۔ دونوں طرف سے ایک سیل رواں تھا کہ آنکھوں سے بہتا چلا جاتا اور ختم ہونے کا نام نہ لیتا۔ وہاں میرے گھر والے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چند دن حال احوال میں گزر گئے پھر معاش کی فکر ہوئی۔ بڑے بھائی بورے والا ہی ایک دکان پر سیلز مین لگ گئے۔ مجھے کسی نے کہا کہ حاصل پور چلے جاﺅ وہاں ایک آڑھتی جاننے والا ہے‘ وہ ملازم رکھ لے گا۔ آڑھتی کا نام برکت علی تھا۔ میں ان کے ہاں جا کر ملازم ہو گیا اور پیٹھ پر بوریاں لاد کر پلے داری کاکام کرنے لگا۔ برکت علی بڑے اچھے آدمی تھے۔ مقامی مزدوروں کو دو روپے دیہاڑی ملتی تھی جبکہ مجھے وہ پانچ روپے دیہاڑی دیتے کیوں کہ میں مہاجر تھا۔ دس روز کام کرنے کے بعد جب میرے پاس 50 روپے جمع ہو گئے تو میں نے برکت علی صاحب سے چھٹی لی کہ یہ رقم گھر پہنچا آﺅں۔ انہوں نے مجھے چھٹی کے ساتھ ساتھ تین روپے نقد دئیے۔ بارہ آنے حاصل پور سے بورے والا کا کرایہ تھا۔ میں رقم گھر دے آیا۔ کم و بیش چھ ماہ یہ کام کیا پھر ایک دن چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا کہ کسی نے مشورہ دیا ملتان چلے جاﺅ۔
میں اور بڑے بھائی ریل پر بیٹھے اور ملتان آ گئے۔ سردیوں کے دن تھے اور ہمارے جسموں پر فقط دھوتی اور بنیان تھی۔ یہاں ملتان رہنے کی جگہ نہ تھی‘ بھائی سٹیشن پر ہی ایک بنچ پر لیٹ گئے۔ مجھے بھی لیٹنے کو کہا مگر مجھے شدید سردی لگ رہی تھی۔ بھائی سو گئے میں اُٹھ کر سٹیشن سے باہر نکل آیا اور سوچتا تھا کیا سبب ہو کہ جسم کو کسی طور حرارت میسر آئے۔ سٹیشن کے باہر ایک تنور تھا‘ اس میں کچھ گرمی باقی تھی اور چار پانچ کتے اس کے گرد اگرد سوئے ہوئے تھے۔ میں ان کے قریب جا کر کھنکارا تو ایک کتے نے سر اُٹھا کر دیکھا اور پھر اپنی جگہ خالی کر دی۔ سو یہ پہلی رات میں نے تنور کے پاس اور کتوں کے درمیان بسر کی۔ اگلے روز شہر آئے‘ اب مجھے یاد نہیں کہ کس طرح مگر ہمیں نواب پور روڈ کا ایک آدمی ملا‘ اسے مسئلہ بتایا تو وہ ہمیں ابدالی روڈ پر اس جگہ لے گیا جہاں ان دنوں زرعی ترقیاتی بنک کی عمارت کھڑی ہے۔ یہاں اُن دنوں وٹرنری ڈیپارٹمنٹ کا دفتر تھا۔ وہاں کا چپڑاسی اس شخص کا واقف تھا۔ اسے بتایا گیا کہ یہ دو مہاجرین ہیں اور روزگار کی تلاش میں پریشاں‘ وہ ہمیں آفیسر کے پاس لے گیا۔ ان کا اصل نام تو مجھے یاد نہیں تاہم ا نہیں طرے باز خان کہا جاتا تھا۔ ہم دونوں بھائی میٹرک پاس تھے۔ انہوں نے کہا میرے پاس جونیئر کلرک کی ایک اسامی خالی ہے‘ ایک ہی بندے کو رکھ سکتا ہوں۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے بھائی جان کو اس ملازمت کے لئے پیش کر دیا۔
طرے باز خان صاحب نے کہا کل سے ڈھنگ کے کپڑے پہن کر آ جانا۔ جب انہیں بتایا گیا کہ کپڑے خریدنے کے وسائل نہیں ہیں تو انہوں نے اپنے نو منتخب جونیئر کلرک یعنی بھائی جان کے لئے تو ایک شلوار قمیض منگوا دی‘ میں دھوتی ہی میں رہ گیا۔ رہنے کا انتظام چوکی دار کے کمرے میں کر دیا گیا اور ایک کمبل بھی خان صاحب نے ہم دونوں بھائیوں کو اپنے پاس سے فراہم کیا۔ بھائی جان کی 32 روپے ماہانہ تنخواہ طے ہوئی۔ بعد میں خان صاحب نے مجھے بھی اوکاڑہ کی خالی ہونے والی نشست پر عارضی جونیئر کلرک رکھ لیا۔ یہ 1949ءکے اوائل کا زمانہ تھا۔اگلے باسٹھ برسوں کی بڑی طویل کہانی ہے۔ میں خود کو صرف بٹوارے کے واقعات تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے نوکری بھی کی اور پڑھائی کا دامن آج تک نہیں چھوڑا۔ اب کہ عمر عزیز کا 82 واں سال ہے تو بھی میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہا ہوں۔ صحافت بھی کی اور پروف ریڈر بھرتی ہو کر بڑی اچھی پوسٹ تک گیا لیکن محنت اور ایمانداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ ہمیں والد صاحب کی نصیحت تھی۔
ایک واقعہ بتا کے کہانی کو ختم کرتا ہوں۔ میں نے شروع میں بتایا کہ خورشید پور میں ہماری چار مربع زرخیز زرعی اراضی تھی۔ بورے والا آ کر والد صاحب نے اس کا کلیم داخل کیا اور وہ منظور بھی ہو گیا۔ منظوری کے بعد جب پٹواری نے کاغذات والد صاحب کے حوالے کئے تو کہنے لگا ”چودھری صاحب! ایک سو روپیہ ”محنتانہ“ دیتے جائیں“ والد صاحب نے کہا اگر کوئی سرکاری فیس ہے تو میں حاضر ہوں مگر رشوت نہیں دے سکتا کہ میرے آقا نے فرمایا ہے رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ قصہ مختصر والد صاحب نے چار مربع اراضی چھوڑ دی مگر رشوت نہیں دی۔ بعد میں پٹواری نے یہ زمین کسی اور کو الاٹ کر دی۔ والد صاحب 1964ء تک زندہ رہے مگر اس زمین کی طرف کبھی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا۔ آخری دم تک انہیں اپنے اس عمل پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ چناں چہ یہ درس ہم دونوں بھائیوں نے ہمیشہ پلے سے باندھ کررکھا۔ بڑے بڑے مشکل حالات دیکھے مگر ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ اللہ نے بڑی عزت دی ہے۔ یہ اُسی کا کرم ہے کہ خورشید پور کا یہ ”حنیفا“ آج حنیف چودھری کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور کئی کتابوں کا مصنف ہے۔
٭٭٭
فیس بک کمینٹ