اور جب سُنبل کے بلند وبالا درختوں سے روئی کے گالے فضاء میں اُڑتے اور بکھرتے تھے۔ جب میں سونے رنگی دھوپ کو وسیع وعریض میدان میں بکھرے اور ہواؤں کی میٹھی سی خُنکی میں خود کو نہال ہوتے، گلیارے کے اُوپر ریل کی پٹڑی پر مال گاڑی کو گزرتے اور لڑکوں لڑکیوں کی ٹولیوں کو مارکیٹ کے کونے والی دوکان پر بجتی موسیقی کی تال پر جھُومتے واڈکا پیتے دیکھتے تھی۔ میں نے داشا Dashaکو سُنا تھا جو مجُھ سے کہتی تھی۔
”کل آپ کا آخری دن ہے یہاں۔ کیسا لگتا ہے؟“
میں چند لمحے داشا کو دیکھتی رہی۔ پھر عجیب سی یاس گھُلی آواز میں بولی۔
”کل پندرھوا ں دن ہے۔ میرے ویزے کا آخری دن۔ پر جانتی ہو میرا جی کیا چاہتا ہے؟ میں تمہارا ہاتھ پکڑوں،اُس گاڑی میں بیٹھ جاؤں جو تمہارے شہر جاتی ہے۔ دریائے دویناDvina کے ساحلی کناروں پربستے تمہارے شہرکو تلاسKotlasکے اُس گاؤں جہاں پہنچنے کے لئے تمہیں گھنے جنگلوں میں بہتے آبی راستوں پر سفر کرناپڑتا ہے۔ اِن راستوں پر جاتے ہوئے میں سُندربن کے جنگلوں کو یاد کروں گی۔ اُن جنگلوں میں بہتے ندی نالوں پر اپنے اُس سفر کو یاد کروں گی جب میں وہاں گئی تھی اور جب بنگلہ دیش میرا پُور بو پاکستان تھا۔
تمہارے گاؤں کے بڑے بڑے چوبی لٹھوں پر بنے مکانوں کو دیکھوں گی جو زمانے اور آگ کے ہاتھوں سیاہ ہوگئے ہیں۔ میرے چترال کے گھروں کی اکثریت بھی ایسے ہی لٹھوں پر بنے مکانوں کی ہے جو اتنے سیاہ ہو گئے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسی ابھی اُن پر پینٹ کیا گیا ہو۔ یہ گھر بالکل تمہارے گھروں جیسے ہی ہیں۔ کہیں دو منزلہ۔کہیں یک منزلہ۔ اگلے حصّے گرمیوں، پچھلے حصّے سردیوں کے لئے۔
”چوبی ڈیزائن کاری کیسی ہوتی ہے؟اُس کا تو اندازہ ہی نہیں ہے آپ کو۔“
داشا نے جب یہ کہا تو میں فوراً بول اُٹھی۔
”یہ کیا بات کی ہے داشا تم نے؟ میرے ملک کے شمالی حصّوں خاص طور پر بلتستان کی خانقاہوں، امام باڑوں، مسجدوں اور راجے مہاراجوں کے گھروں کی چوبی کنندہ کاری اگر تم دیکھو تو حیرت سے آنکھیں پھٹ جائیں گی تمہاری۔“
داشا نے بات وہیں ختم کر دی کہ
”وہ کل چوبی گھروں اور گرجاؤں کی تصاویرلا کر ہمیں دکھائے گی اور پھر فیصلہ ہو گا۔“
داشا تمہارے لہجے میں چھلکتا فخر اور غرور مجھے اچھا لگا تھا جب تم بیلنا کے بارے میں بات کرتی تھیں۔ایسے کردار ہمارے دیہاتوں میں بھی ہوتے ہیں۔ قصہ گو، مجاہدوں کے کارناموں اور لوک داستانوں کوسنانے والے۔
ایلیا مورومیش کے بارے میں بتاتے ہوئے تم کتنی پُر جوش تھیں۔اپنے بچپن کے اُن دنوں کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے تمہاری آنکھیں چمکتی تھیں۔ تو یہ ایلیاویسا ہی ایک کردارہے۔ ہمارے ہاں کے جگے اورسُلطانہ ڈاکو جیسا۔ جو امیروں کو لوٹتے اور غریبوں کو نوازتے تھے۔
کاش میں تمہارا ہاتھ پکڑ کر دریائے دوینا پر سفر کرتے ہوئے قدیم رُوس کی اُس تہذیب کو دیکھ پاتی جسے شہروں میں دیکھنا ممکن نہیں۔
داشا چلی گئی تھی۔ میں ابھی تک وہیں بیٹھی ہوں۔ گلیارے کے اوپر سے پسنجرٹرین گذر رہی ہے، ساری ٹرین میر ی نظروں سے گذر کر دور بُہت دور چلی گئی ہے۔ اُس کی کھڑکیوں سے نظرآنے والے چہرے جو جانے کہاں کہاں سے آئے تھے اور جانے کِن کِن منزلوں کی جانب رواں دواں تھے۔یہ چہرے جنہیں میں نے پل بھر کے لئے دیکھا ہے اور جنہیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھوں گی۔
گلیارے میں بیٹھی عورتیں اپنی اپنی دُکانداری میں مصروف ہیں۔ ہم نے اپنے قیام کے دوران پھل صرف اِن سے ہی خرید اہے۔ اِن میں سے دو جارجیا سے ہیں۔ سبزی بیچنے والی ماسکو سے ہے چھوٹی موٹی کتابیں، رسالے، اخبار، جرابیں، کنگھے اور مُنیاری کی دوسری چیزوں کو فروخت کرنے والی اولیانوفسک کے شہر سے ماسکو آئی ہوئی ہے۔ پہلے دن اُن کا رویہ رُوکھا پھیکا تھا۔ دوسرے دن قدرے بہتر ہوا۔ تیسرے دن سے اب تک اچھی خاصی دوستی ہو گئی ہے۔ زبان کا مسئلہ آڑے آتا ہے پر مسکراہٹوں اور جسچر کا فی حد تک مددکرتا ہے۔
میری نظروں کا رُخ بے اختیار سامنے کی طرف اُٹھ گیا ہے۔ وسیع وعریض میدان کی طرف جو سونے جیسی دھوپ میں نہا رہا ہے۔ جس کے کناروں پر سُنبل کے درخت ہیں۔ جن درختوں سے روئی اُڑ اُڑ کر راستوں پر بکھرتی ہے کہ میں سوچتی ہوں اگر اسے اکٹھا کر لوں تو میرا تکیہ بن سکتا ہے۔ ماسکو سے ہمیں سوونئیرز نہیں ملے۔ چلو یہی نشانی سہی۔میدان میں آگے پیچھے کھڑی 340،787،999، 209، 203،904، 345نمبروں کی بسیں جنہوں نے پورا ماسکواِ س قدر سہولت اور آرام سے یوں مجھے متعارف کروایا کہ میرے پاس شکریے کے چند الفاظ ہی ہیں۔
ماسکوکی بلند قامت عمارات سے میرا تعارف ایک بار تھوڑی کئی بار ہوا۔اس کی
کشادہ ترین شاندار سڑکوں کو میں نے اِن بسوں سے دیکھا۔اور بار بار دیکھا۔ اِن کھڑکیوں سے جھانکتی میں نے سمولینکایا Smolenskaya سکوائر میں وزارتِ خارجہ کی بے حد شانداراور جاہ وجلال والی عمارت کو دیکھا اور حیرت زدہ ہوئی۔رُوس کی خارجہ پالیسی کی نمائندہ عکاس ہے یہ عمارت۔انہی سڑکوں پر چکر کاٹتے گھومتے پھرتے میں لیونینسکایا گورے کی خوبصورتی سے آشنا ہوئی۔ یہ ماسکو کا جنوب مغربی حصّہ ہے۔ دریائے ماسکو کے کنارے واقع اِس پہاڑی جگہ سے پورا شہر آنکھوں کے سامنے آ جاتاہے۔ ایک طرف شہر ہے۔دوسری طرف ماسکو یونیورسٹی کا شہر۔
1930سے 1950تک ماسکو کو نیوکلاسیکل سٹائل کے رنگوں سے سجا یا گیا۔Vosovy Goryکی پہاڑی سے بھی منظروں کا نظارہ کیا اور میں نے یونیورسٹی کو بھی چھُوا۔
میدان میں کھڑی اور چلتی بسوں کے ڈرائیور بھی جان گئے تھے۔ہر روز ساڑھے تین چار بجے واپس آتے۔ تھوڑا سا آرام کرتے، پھر کیفے میں آجاتے۔ مزیدار چائے پیتے کبھی اندر کبھی باہر گول چبوترے پر بیٹھ کر۔کیفے کی تینوں ویٹرس لڑکیوں میں سے جوجو حاضر ہوتی۔اُس سے گپ شپ کرتے۔ اور پھر بس میں بیٹھ کر نئے محاذ پر نکل پڑتے۔ نو دس بجے تک ہم اِن بسوں میں گھومتے۔ کبھی ایک بس سے اُتر کر دوسری میں بیٹھ جاتے۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ ایک چکر کے بعد بیٹھے رہتے۔209کا ڈرائیور بڑا بیبا سا تھا۔نیو ارباط اور Vorobyovy Hillsکے نظارے ہم نے اِن ہی بسوں سے لُوٹے۔خوبصورت پُلوں سے گزرے۔ وائٹ ہاؤں دیکھا۔ یہ نئے ماسکو کا سمبل ہیں۔جنگ عظیم کے قیدیوں کی محنتوں کا ثمر۔نووڈوچی کونونٹ Novodevichyکی خوبصورت عمارتوں کے بیرونی نظاروں سے ہی دل کا رانجھا راضی کیا۔ ماسکوکی مغربی سمت کی انتہاؤں پر واقع اِس مناسٹری
کو ہم سے کہاں دیکھا جانا تھا۔
ماسکو کا صنعتی علاقہ، اُس کے پارک، دریائے ماسکو کے پانیوں سے بنائی ہوئی مصنوعی جھیلوں میں شام کی ٹھنڈی ٹھار ہواؤں میں تیراکی کرتے چھوٹے چھوٹے بچے، برچ اور صنوبر کے درختوں کے ذخیروں میں اُترتی شاموں کی اُداسی اور تنہائی کو ہم نے بُہت قریب سے دیکھا۔
اب ماسکو کے پونے دو سو کے قریب میوزیم اور نمائش گاہوں کو دیکھنا ہمارے لئے کہیں ممکن تھا؟کتنے بے شمار تھیٹر ہیں؟ پنتالیس، پچاس۔ ڈھیروں ڈھیر تعلیمی ادارے، لائبریریاں اور کلچرل سینٹرز ہیں۔ کتنا کچھ دیکھتے لیتے؟
KaOeکی خوبصورت لڑکیوں نے بُہت محبت دی۔سچی بات ہے ہم نے بھی تمہاری چاہت میں باہر کھانا کھانا چھوڑ دیا تھا۔
تو اب رُخصت ہوتے ہیں۔ڈھیر سارا پیار۔ زنسکایا۔دوشااور ورونیکا۔
فیس بک کمینٹ