پاکستان بطور ریاست ، حکومت او رمعاشرہ دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کے لیے ایک بڑی جنگ لڑرہا ہے۔یہ کوئی معمولی جنگ نہیں بلکہ ایک مشکل اور طویل جنگ ہے ۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ہماری معاشرت یا سماج کو بری طرح متاثر کیا اور اسی وجہ سے ہمارا داخلی سطح سمیت خارجی محاذ پر بھی بیانیہ کافی تنقید کی زد میں رہا ہے ۔ لیکن یہاں پاکستان کی ریاست، حکومت، سیاسی قیادت سمیت فوج یا دیگر سیکورٹی اداروں کو داد دینی ہوگی کہ جن کی کوششوں سے آج ہم کافی حد تک دہشت گردی سے خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں ۔ یہ جنگ محض فوج نے ہی نہیں لڑی بلکہ ہر پاکستانی کسی نہ کسی شکل میں اس جنگ میں بطور سپاہی لڑتا رہا ہے ۔انتظامی اور سیاسی و سماجی سطح پر بیانیہ کی یہ جنگ بدستور ہم لڑرہے ہیں ۔
اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ایک بڑی کوشش ” ایف اے ٹی ایف “ فانینشل ایکشن ٹاسک فورس کی سطح پر گرے لسٹ سے نکلنے کی بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں22-25فروری کو پیرس میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو مزید تین شرائط پوری کرنے کے لیے جون 2021تک مہلت دی گئی ہے ۔ ایف اے ٹی ایف نے 27نکات میں سے 24نکات پر پاکستان کی مجموعی کارکردگی کو خوب سراہا ہے ۔ان کے بقول پاکستان کو جوتجاویز دی گئی تھیں اس پر اس نے بھرپور پیش رفت کی ہے ۔جن تین نکات پر سوالات اٹھائے گئے ہیں ان پر بھی جز وی طور پر پاکستان کی کارکردگی کو سراہا گیا ہے اور مزید بہتری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔جو تین نکات جن پر ہماری توجہ دلائی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں اول یہ ظاہر کرنا کہ ٹیرر فاننسنگ کی تفتیش اور قانونی کاروائی ان افراد یا اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو نامزد افراد یا اداروں کی ہدایت پر کام کرتے ہیں ۔دوئم یہ ظاہر کریں کہ ٹیریر فانسنگ کے خلاف قانونی کاروائی کے نتیجے میں موثر اورمتناسب پابندیاں عائد کی گئی ہیں ، سوئم تمام 1267یا1373نامزد دہشت گردوں بالخصوص ان لوگوں پر ان نامزد کی طرف سے کام کرتے ہیںکے خلاف ٹارگٹڈ مالی پابندیوں کے موثر نفاذکا مظاہرہ کرنا شامل ہے ۔
ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلیئرکے بقول پاکستان مزید چار ماہ نگرانی میں رہے گا ، البتہ وہ پاکستان کی بھرپور سنجیدہ کوششوں کی ہر سطح پر تعریف کرتے ہیں ۔ جن تین نکات پر ہمارے تحفظات ہیں اس پر اگر واقعی پاکستانی مزید موثر اقدامات اٹھاتا ہے تو جون کے اجلاس میں پاکستان گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے ۔وفاقی وزیر حماد اظہر کے بقول ہم نے 90فیصد معاملات کو عالمی معیارات کے مطابق ڈھال لیا ہے اور جو دس فیصد کام باقی ہے اس پر بھی سنجیدگی سے کوششیں جاری ہیں ۔پاکستان نے مالیاتی شعبہ اور بارڈر کنٹرول سے متعلق ایکشن پلان کے دس نکات پر عمل کرلیا ہے ۔جبکہ دہشت گردوں تک مالیاتی رسائی سے متعلق تحقیقات اور پراسیکیوشن سے متعلق آٹھ میں سے چھ نکات پر عملدرآمد کرلیا ہے ۔اسی طرح ٹارگٹڈ مالی پابندیوں کے نو نکات میں سے آٹھ پر مکمل عمل درآمد بھی کرلیا گیا ہے ۔بالخصوص اسی اجلاس میں دہشت گردوں کی مالیاتی رسائی کی روک تھام کے لیے پاکستان کی اعلی قیادت کی تعریف کی ہے ۔
اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان کو فروری کے اس اجلاس میں گرے لسٹ سے باہر نکال دیا جائے گا ، مگر یہ بات کافی حد تک محسوس کی جارہی تھی کہ جنگ ابھی جاری ہے ختم نہیں ہوئی ۔ ہمیں کچھ عرصہ اور گرے لسٹ میں رہنا ہوگا ۔لیکن ایف ا ے ٹی ایف میں ہماری کارکردگی کو جس انداز سے سراہا گیا ہے وہ قابل تعریف اور حوصلہ بھی دیتی ہے کہ پاکستان ان اہم معاملات پر درست سمت میں جارہا ہے ۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے جو حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے وہ نہ صرف درست ہے بلکہ ہمیں یقینی طور پر مستقبل میں گرے لسٹ سے باہر نکلنے میں بھی مدد فراہم کرے گی ۔ مسئلہ محض گرے لسٹ سے نکلنا یا عالمی دباو کی ہی نہیں بلکہ یہ تمام اقدامات کسی نہ کسی سطح پر ہماری ریاست کے مفاد میں ہے ۔ کیونکہ جو کچھ بھی غلط ہورہا تھا یا اب بھی ہورہا ہے اس کا خاتمہ عالمی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قومی مفاد کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے اور یہ ہماری قومی ترجیحات کا اہم حصہ بھی بنتا ہے ۔
ہمیں وفاقی وزیر حماد اظہر سمیت ، وزرات خارجہ ، نیکٹا، سمیت سیاسی اور عسکری قیادت کو بھی داد دینی ہوگی کہ وہ ان تمام معاملات میں خودکو ایک بڑی سنجیدہ کوششوں کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔اصل مسئلہ جہاں پالیسی یا قانون سازی کرنے کا ہے وہیں ان نکات پر عملدرآمد کے تناظر میں شفافیت پیدا کرنے کے لیے سخت اورکڑی نگرانی کا نظام، ادارہ جاتی سطح پر موثراصلاحات اورمضبوط بنانا ، جوابدہی اور احتساب کا موثر نظام ، بغیرکسی سیاسی ،مذہبی تفریق کے دہشت گردوں یا ان کے معاونت کاروں کے خلاف یکساں پالیسی ، پولیس اور دیگر اداروں کی جدیدبنیادوں پر تربیت سمیت ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ نہ صرف درکار ہے بلکہ یہ ہر سطح پر نظر بھی آنی چاہیے ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں یا دیگر اداروں کے درمیان موثر رابطہ کاری اور بہتر تعلقات ، جامع پالیسی اور تعاون کے امکانات کو آ گے بڑھانا ہے ۔ ایسے میں بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے نظام کو بھی داخلی سیاست میں زیادہ موثر اور منظم کرنا ہوگا ۔تاکہ محض انتظامی بنیادوں پرہی نہیں بلکہ علمی و فکری بنیادوں پر بھی ہم قومی راہنمائی میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔
ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی سنجیدہ کوششوں او رکارکردگی کی اہمیت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ہمیں بھارت کی جانب سے اپنے کام پر سخت مزاحمت کا سامنا ہے ۔بھارت نے پوری کوشش کی ہے اور بدستور کررہا ہے کہ پاکستان کو اول تو گرے لسٹ سے کسی بھی صورت نکلنے نہ دیا جائے بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہمیں بلیک لسٹ میں شامل کرنا بھی اس کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں بھارت کی جانب سے مسلسل مزاحمت کا سامنا ہے اور بھارت اپنی سیاسی ، سیکورٹی اور سفارتی ڈپلومیسی کی بنیاد پر عالمی دنیا میں پاکستان کے خلاف مخالفانہ مہم کا سامنا ہے ۔فرانس نے بھی اسی اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر نکالنے کی مخالف کی اوراس کی وجہ بھارت اور فرانس کے درمیان حال ہی میں ہونے والے دفاعی ماہدے ہیں اور فرانس نے مخالفت کرکے بھارت ہی ایجنڈے کو تقویت دی ہے ۔یا د رہے کہ پاکستان کو 2018میں گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور ایف اے ٹی ایف کی چالیس شرائط میںسے ہم گیارہ پر پورا اترتے تھے اور ہمیں مزید27شرائط پر عمل کرنے کا پابند کیا گیاتھا ۔
ایسے میں ایف اے ٹی ایف کا پاکستان کی کارکردگی کو سراہنا یا تعریف بھارت کے لیے مشکل پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔اس لیے پاکستان کو جہاں بھارت مخالف مہم کا مقابلہ کرنا ہے وہیں مزید سنجیدہ کوششوں سے مزید تین اقدامات پر خود کو موثراور بہتر پیش کرکے عالمی دنیا کو باور کرواناہے کہ ہم درست سمت میں چل پڑے ہیں اور یہ کوئی مصنوعی کوشش نہیں بلکہ اس ایجنڈے کو ٹھوس بنیاد پر اختیار کیا گیا ہے ۔
اگرچہ ہمارے گرے لسٹ میںبدستور رہنے کے پیچھے عالمی طاقت ورممالک کی پالیسی کا بھی دخل ہے جو ہر صورت میں ہم پر اپنا دباو بڑھا کر ہم پر بالادستی چاہتا ہے او راس کی کوشش ہے کہ پاکستان کودباو میں رکھ کر دیگر معاملات پر بھی اسے مجبور کیا جائے کہ عالمی دنیا کی شرائط پر خود کو پیش کرے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کو جو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پلان دیا گیا ہے وہ کافی مشکل، سٹرٹیجک، جامع اور چیلنجنگ بھی ہے ۔جبکہ دیگر ملکوں کو جو پلان دیا گیا ہے وہ ہم سے کافی مختلف ہے ۔اس لیے ہمیں بہت سے امور کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی بجائے اسے عالمی سیاست کے بڑے ایجنڈے سے جوڑ کر بھی دیکھنا ہوگا ۔ کیونکہ ہم گلوبل دنیا کا حصہ ہیں تو اس لیے ہمیں ایف اے ٹی ایف کی کوششوں کے حوالے سے اپنی کوششوں پر سیاسی ، سفارتی یا ڈپلومیسی کے محاذ پر بھی جنگ لڑنی ہے تاکہ ہم خود کو بطور ریاست ایک بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرسکیں۔
فیس بک کمینٹ