سیاسی جماعتیں اپنے داخلی محاذ پر بہت زیادہ جمہوری اور شفافیت کے انداز میں کام کرنے میں بہت پیچھے رہتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر ان کا داخلی سیاسی و جمہوری بحران ہمیشہ سے غالب رہا ہے ۔عمومی طور پر ہماری سیاسی جماعتیں کسی نظم ، ادارے یا تنظیم کی بجائے فرد واحد کی شخصیت کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں ۔ ہر سیاسی جماعت میں فرد واحد ہی فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے اور وہی تمام تر فیصلوں کی طاقت کا محور بھی ہوتا ہے ۔ یہ رویہ عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کو جمہوری کم اور ان میں غیر جمہوری طرز عمل اور فیصلوں کو زیادہ تقویت دینے کا سبب بنتا ہے ۔حالیہ دنوں میں ہم تحریک انصاف جو ملک میں ایک تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر اقتدار کی سیاست کا حصہ بنی ہے وہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح اپنے داخلی سیاسی بحران کا ہمیشہ سے شکار رہی ہے ۔
تحریک انصاف میں مجموعی طور پر جو طاقت ور سیاسی افراد یا شخصیات ہیں وہ ماضی میں ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے لوگوں پر مشتمل ہے ۔ بالخصوص اگر ہم آج مجموعی طور پر ملک میں قومی اور صوبائی سطح پر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی تعداد کا تجزیہ کریں تو اس میں زیادہ تر لوگ ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں میں فعال تھے اور حالات کے تیور دیکھ کر وہ اپنی جماعت کو تبدیل کرکے تحریک انصاف کا حصہ بنے ہیں۔ان میں سے بیشتر لوگ طاقت کی سیاست کے گر دگھومنے کا نہ صرف تجربہ رکھتے ہیں بلکہ شوق بھی ان کا غالب ہوتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی طاقت کی سیاست ہوگی تو اس طرح کے لوگ اپنی سیاسی وفاداریوں کو تبدیل کرنے میں کسی سیاسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔
حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کا داخلی بحران بڑا واضح اور صاف نظر آتا ہے ۔ یہ بحران وفاق سمیت خیبر پختونخواہ، پنجاب ، بلوچستان سمیت سندھ میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔اس کی تین بڑی وجوہات ہیں ۔اول ارکان اسمبلی کی اکثریت وفاق سمیت پنجاب و خیبر پختونخواہ کی وفاقی و صوبائی حکومتوں سے نالاں ہیں کیونکہ ان کو ترقیاتی فنڈزنہ ملنے کی شکایات ہیں۔ ان لوگوں کے بقول ہمیں حکومت کی کارکردگی پرعوامی محاذ پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر ہمیں ترقیاتی فنڈذ نہ دے کر بھی سوتیلا سلوک کیا جارہا ہے ۔ دوئم سینٹ اور ضمنی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے اور بعض پارٹی کے لوگوں نے تو الزامات بھی لگائے ہیںکہ پارٹی ٹکٹ بیچے بھی گئے ہیں ۔ سوئم پارٹی میں صوبائی سطح پر بعض اہم افراد کو لگتا ہے کہ پارٹی کے سربراہ بڑے فیصلوں میں ہمیں مشاورت کا حصہ بنانے کی بجائے تمام معاملات کو چند افراد کی سطح تک محدود کرتے ہیں او ریہ ہی وہ چند افراد یا لوگ ہیں جو پارٹی قیادت کو گمراہ کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ یہ ہی رویہ پارٹی میں بڑی تقسیم پیدا کررہا ہے ۔
تحریک انصاف کی تنظیم سازی کا عمل ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے ۔ اس وقت سیف اللہ نیازی تحریک انصاف کی تنظیم سازی کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں ۔سیف اللہ نیازی پرانے نظریاتی کارکن ہیں اور کارکنوں میں وہ اپنی مقبولیت بھی رکھتے ہیں ۔ لیکن کیونکہ ان کا بڑا زور پنجاب کی سطح پر موجود ہے اس لیے دیگر صوبوں میں مسائل زیادہ دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم کے دورہ پشاور میں بیس سے زیادہ ارکان قومی صوبائی ممبران کی وزیر اعظم کے اجلاس میں عدم شرکت اہم نکتہ ہے ۔ اسی طرح پارٹی کے داخلی بحران کی وجہ سے نوشہرہ کے ضمنی انتخاب میں صوبائی نشست پر شکست نے بھی داخلی بحران کو نمایاں کیا ۔ وزیر دفاع پرویز خٹک کے بھائی اور صوبائی کابینہ کے رکن لیاقت خٹک کی صوبائی کابینہ سے برطرفی بھی ظاہر کرتی ہے کہ وپاں سب اچھا نہیں ہے ۔پرویز خٹک صوبہ میں اپنی سیاسی بالادستی چاہتے ہیں جبکہ ان کا مخالف گروپ خود کو نمایاں کرنا چاہتا ہے اور یہ ہی وجہ تنازعہ ہے جس کی قیمت پارٹی کو دینی پڑرہی ہے ۔وزیر اعظم نے لیاقت خٹک کو کابینہ سے علیحدہ کرکے خٹک برادران کو سخت پیغام دیا ہے کہ وہ سیاسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہونگے۔بلوچستان کے صوبائی صدر یار محمد رند کو گلہ ہے کہ صوبہ کے معاملات صوبائی قیادت کی بجائے چیرمین سینٹ کی مشاورت سے ہوتے ہیں ۔جبکہ سندھ میں حلیم عادل شیخ، گورنر سندھ اور پارٹی کے دیگر لوگوں کی گروپ بندیاں بھی نمایاں ہیں ۔یہ ہی صورتحال پنجاب میں بھی نظر آتی ہے جہاں بہت سے ارکان اسمبلی نے وزیر اعلی عثمان بزدار سے نالاں ہوکر ” ناراض گروپ “ بنایا ہوا ہے ۔ اس میں زیادہ تر لوگ جنوبی پنجاب سے ہیں اور ان کو گلہ ہے کہ وزیر اعلی نے تمام ترقیاتی فنڈز کو ڈی جی خان اور اس کے نزدیکی اضلاع تک محدود کیا ہوا ہے ۔
بنیادی طور پرجب سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام جب کمزور ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں طاقت ور سیاسی افراد ان جماعتوں میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کروانے کے حق میں ہوتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کی ایک بڑی شکل پارٹی میں گروپ بندی کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔اس وقت سینٹ کے انتخابات ہورہے ہیں او رپی ٹی آئی کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس بار سینٹ کے انتخابات میں اپنے سیاسی مخالفین پر بڑی سیاسی برتری حاصل کرکے سینٹ پر بالادستی حاصل کرے۔عمران خان حکومت کے لیے سینٹ کی بالادستی بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود براہ راست ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں سے ملاقاتیں بھی کررہے ہیں او ران میں ان کی اتحادی جماعتیں بھی شامل ہیں ۔کیونکہ یقینی طور پر وزیر اعظم کی کوشش ہوگی کہ جو بھی اس وقت پارٹی میں تقسیم ہے اس کا براہ راست اثر ان کو سینٹ کے انتخابی نتائج میں منفی طور پر نہ دیکھنا پڑے۔
اس وقت حزب اختلاف کی پوری کوشش ہے کہ وہ تحریک انصاف کے داخلی بحران اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی موجود سیاسی بے چینی سے بھرپور فائدہ اٹھا کر حکومت کو سینٹ کے نتائج میں بڑا آپ سیٹ کریں ۔ ان کی اول کوشش اسلام آباد کی نشست ہے جہاں وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا مقابلہ پی ڈی ایم کے امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ہے ۔ گیلانی صاحب کی کوشش ہے کہ وہ اس کامیابی میں پی ٹی آئی کے ناراض راہنما جہانگیر ترین کا ٹرمپ کارڈ بھی کھیلیں ۔ دوئم خیبر پختونخواہ میں وہ تحریک انصاف کی داخلی لڑائی سے فائدہ اٹھا کر دو یا تین اضافی نشستیں جبکہ وزیر اعلی سندھ کا دعوی ہے کہ وہ سندھ میں دو اضافی نشستیں جیت کر بڑا سرپرائز دیں گے ۔ اگر واقعی حزب اختلاف کی سیاسی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے تو اس میں ایک بڑی وجہ یقینی طور پر تحریک انصاف کا داخلی بحران ہوگا اور اس کی بڑی ذمہ داری بھی وزیر اعظم عمران خان سمیت پارٹی کی دیگر قیادت پر عائد ہوگی ۔
تحریک انصاف کے لیے سینٹ کے نتائج اور ان کی جماعت میں موجود داخلی بحران کا باہمی تعلق ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کون کس پر سیاسی برتری حاصل کرتا ہے ۔اگر واقعی حزب اختلاف کی حکمت علمی کامیاب ہوتی ہے تو یہ حکومتی جماعت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہوگا ۔ برحال سینٹ کے نتائج کچھ بھی نکلیں تحریک انصاف کو اپنی جماعت کے داخلی بحران او رتنظیم سازی سے جڑے معاملات کو فوری طور پر اپنی بڑی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنانا ہوگا ۔کیونکہ سینٹ کے بعد ایک بڑا معرکہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کی صورت میں سامنے آنے والا ہے اور یہ تنظیمی بحران ان کو مقامی حکومتوں کے انتخابات کے تناظر میں بھی بڑی مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ