ڈیڑھ ماہ کے طویل سفر کا آخری پڑاؤ آن پہنچا ہے اور ٹورنامنٹ کی دو بہترین ٹیمیں انڈیا کے شہر احمد آباد میں اس ٹرافی کا آخری معرکہ لڑنے کو ہیں جہاں انڈین شائقین کا ایک نیلگوں سمندر تاریخ کا نظارہ کرے گا۔
تاریخ پہ نظر دوڑائے تو یہ آسٹریلیا کی طرف دار دکھائی دیتی ہے جبکہ موجودہ فارم پہ نگاہ کی جائے تو روہت شرما کی ٹیم ٹرافی کے قریب تر دکھائی دیتی ہے۔ مگر دباؤ بلاشبہ یہاں انڈیا پہ ہی ہو گا۔
ہوم گراؤنڈز میں کھیلنے کا اگر فائدہ ہے تو ہوم کراؤڈ کی موجودگی کا دباؤ بہت حد تک اس فائدے کو منہا بھی کر دیتا ہے۔ اور پھر جہاں بہت کچھ داؤ پہ لگا ہو، وہاں فارم اور تکنیک کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں، مقابلہ محض ٹیمپرامنٹ کا ہو رہتا ہے۔
انڈین ٹیم کا فائنل تک سفر بہت خوابناک رہا ہے۔ شکست اسے چھو نہیں پائی اور بہت سی فتوحات تو مضحکہ خیز حد تک آسان رہی ہیں۔ اگرچہ تاریخی طور پہ انڈین ٹیم کی شہرت اپنے بیٹنگ وسائل کے سبب رہی ہے مگر حالیہ مہم جوئی میں بولنگ نے اپنا الگ جہان پیدا کر ڈالا ہے۔
اس کے برعکس پیٹ کمنز کی ٹیم کا سفر بہت مختلف رہا ہے۔ پہلے دو میچز کے بعد ٹیبل کے سب سے نچلے خانے میں پہنچ کر اس ٹیم نے ڈھلان پہ دوبارہ چڑھائی شروع کی اور بتدریج اپنی بہترین الیون دریافت کرتے کرتے فائنل تک رسائی حاصل کی۔
احمد آباد میں یہ فائنل اسی پچ پہ کھیلا جا رہا ہے جہاں انڈیا نے پاکستان کے خلاف نہایت سہل برتری بٹوری تھی۔ مگر پیٹ کمنز اس امر سے قطعاً پریشان نہیں ہیں کہ استعمال شدہ پچ یا ہوم کراؤڈ کی موجودگی سے انڈین ٹیم کو کوئی ممکنہ نفسیاتی برتری مل پائے گی۔
گو اس ٹورنامنٹ میں فتوحات کے اعتبار سے انڈین ٹیم کا سفر بہت خوش کن رہا ہے مگر پریشان کن پہلو یہ ہے کہ تاحال اس ٹیم کو کوئی ایسا دقیق لمحہ پیش ہی نہیں آیا کہ جہاں سے نکلنے کا کوئی حالیہ تجربہ میسر آ پایا ہو۔
’آخری بار جب یہ دونوں ٹیمیں ایک ورلڈ کپ فائنل میں مدِ مقابل آئی تھیں تب گلین میک گرا نے میچ سے پہلے ہی یہ کہا تھا کہ وہ ٹنڈولکر کو سنبھال لیں گے۔ اور پھر ہوا بھی یہی۔۔۔‘
اگرچہ بیٹنگ اس ٹیم کی قوت ہے مگر یہ امر بھی ملحوظِ نظر رہنا چاہیے کہ لاشعوری طور پہ ایک خوف بہرحال اس کیمپ کا حصہ رہا ہے جہاں صرف بیٹنگ صلاحیت کی بنیاد پہ شاردل ٹھاکر کو محمد شامی پہ فوقیت دی جا رہی تھی اور صرف ہاردک پانڈیا کی انجری ہی شامی کی الیون میں واپسی کی راہ ہموار کر پائی۔
اگر مچل سٹارک اور ہیزل ووڈ کا ابتدائی سپیل اس لاشعوری خوف پہ ضرب لگا گیا اور امتحان لوئر مڈل ارڈر تک آن پہنچا تو انڈین کیمپ کے حواس بکھر بھی سکتے ہیں۔ اور اگرچہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ایک آسان فتح انڈیا کا مقدر ہوئی مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ بولنگ ڈیپارٹمنٹ میں اکیلے محمد شامی کو سارا بوجھ اپنے کندھوں پہ اٹھانا پڑا۔
چونکہ یہ پچ استعمال شدہ ہے، سو یہاں بھی متوقع یہی ہے کہ محمد شامی آسٹریلوی بیٹنگ کا بھرپور امتحان ثابت ہوں گے۔ لیکن اگر آسٹریلوی بیٹنگ ان سے نمٹنے کی کوئی موثر حکمتِ عملی کھوج پاتی ہے تو روہت شرما کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں کہ حالیہ میچز میں بمراہ اور سراج کماحقہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔
جبکہ اس کے برعکس متواتر اوسط کارکردگی دکھانے والے مچل سٹارک سیمی فائنل میں اپنی بہترین کاوش کے ساتھ ابھرے اور دھماکے دار افریقی بیٹنگ لائن کے بخیے ادھیڑ ڈالے۔ لیکن آسٹریلیا کو اپنے امکانات روشن کرنے کے لیے سٹارک سے کہیں زیادہ اپنے کپتان کمنز کی بولنگ میں عمدگی درکار ہو گی جن کے لیے یہ ٹورنامنٹ بالکل متاثر کن نہیں رہا۔
آخری بار جب یہ دونوں ٹیمیں ایک ورلڈ کپ فائنل میں مدِ مقابل آئی تھیں تب گلین میک گرا نے میچ سے پہلے ہی یہ کہا تھا کہ وہ ٹنڈولکر کو سنبھال لیں گے۔ اور پھر ہوا بھی یہی کہ میک گرا کے ٹنڈولکر کو سنبھالتے ہی باقی انڈین بیٹنگ بھی سمٹ گئی اور ٹرافی رکی پونٹنگ لے گئے۔
اگر یہاں کمنز کو ٹرافی اٹھانا ہے تو پھر مچل سٹارک کو بھی وہی عزم دہرانا ہو گا کہ وہ وراٹ کوہلی اور کے ایل راہول کو سنبھال پائے تو احمد آباد کے جمِ غفیر پہ سکوت طاری ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ