راولپنڈی : مولانا سمیع الحق کا قتل ایسے لمحوں میں ہوا جب ملک پہلے ہی بحران میں ہے اور آسیہ کیس میں جلاؤ گھیراؤ جاری ہے ۔ مولانا سمیع الحق 18 دسمبر 1937 کو خیبر پختونخوا کے علاقے اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے تھے۔انہوں نے پاکستان کی حکومت کو ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے خود کو علیحدہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتی ہے تو کراچی، بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں امن و امان خود بخود بحال ہو جائے گا۔خیال رہے کہ مولانا سمیع الحق طالبان سے متعدد مرتبہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور انہوں نے افغان حکومت کی طالبان سے حالیہ مذاکرات کی بھی حمایت کا اعلان کیا تھا۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں بھی افغان حکام اور علما نے جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ سے طالبان کے مختلف گروہوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔یاد رہے کہ مولانا سمیع الحق کی جماعت نے رواں سال 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات اسلامی جماعتوں کی متحدہ جماعت متحدہ مجلس عمل سے الحاق نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ملک میں مدرسوں، درسگاہوں میں اصلاحات پر عمل در آمد کے لیے اقدامات کر رہے تھے۔ سینئر صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ بہت دکھ اور غم کا ماحول ہے، اور ان کے عزیز اور طلباء کو صبر کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ دارالعلوم حقانیہ کے اساتذہ اور دیگر اس سانحے پر صبر کا دامن نہیں چھڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ان کے جنازے میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہو گی اور اسی دوران دہشت گردوں کی جانب سے خطرناک کارروائی کا بھی خطرہ ہے۔معروف صحافی سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ان کے نظریات سے اختلاف کر سکتے تھے لیکن وہ بہت اچھے انسان تھے اور مخالفین سے بھی بہت خلوص سے ملتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جب جمیعت علماء اسلام 2 حصوں میں تقسیم ہوئی لیکن اس کے باوجود ان کے تمام دھڑوں کے ساتھ تعلقات تھے۔انہوں نے کہا کہ دینی حلقوں میں مولانا سمیع الحق عموماً ریاست کے ساتھ کھڑے ہوتے، اگر چہ لوگ انہیں طالبان کا حامی سمجھتے تھے لیکن ان کی جانب سے پاکستان میں کبھی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت نہیں کی گئی۔
فیس بک کمینٹ